سندھ ہائیکورٹ نے پولیس پراپرٹی کو کمرشل سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے سے روکنے کی ہدایت کردی۔ جسٹس ظفر راجپوت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ حیدری پولیس اسٹیشن کے اطراف دکانوں کے کرایہ داری کے اس معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، اسلیے کمرشل سرگرمیاں نہیں ہوسکتیں۔
سندھ ہائیکورٹ میں پولیس پراپرٹیز کے کمرشل استعمال سے متعلق درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے پر عدالت نے حیدری پولیس اسٹیشن کے اطراف دکانوں کی قانونی حیثیت سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
مزید پڑھیں
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر دکاندار تحریری درخواست کریں تو انسانی بنیادوں پر انہیں ایک سال کی مہلت دی جاسکتی ہے، ان دکانوں پر اندرون سندھ پولیس پراپرٹیز پر تعمیرات منہدم کرنے کے فیصلے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ سکھر بینچ کا فیصلہ ناجائز تعمیرات اور حیدری مارکیٹ کا معاملہ غیر قانونی کرایہ داری کا ہے۔
جسٹس طفر راجپوت نے ریمارکس دیے کہ پولیس ویلفیئر فاؤنڈیشن کو پولیسنگ کے لیے وقف زمین کرایہ پر دینے کا اختیار نہیں ہے، یہ درست ہے کہ درخواست گزاروں نے ناجائز تجاوزات قائم نہیں کیں۔
’انہیں محکمہ پولیس کی جانب سے دعوت دی گئی اور پولیسنگ کی جگہ پر بٹھا دیا گیا، کرایہ داری کے اس معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، اس لیے کمرشل سرگرمیاں نہیں ہوسکتیں۔
وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ کالی وردی کمزور ہے اس لیے اس پر چھری چل جاتی ہے۔ شاہراہِ فیصل پر کس طرح تجارتی سرگرمیاں ہوتی ہیں اور پھر راتوں رات انہیں کالج قرار دیدیا جاتا ہے۔
جس پر جسٹس ظفر راجپوت نے کہا کہ آپ کسی اور کے خلاف کیس لا کر دیکھ لیجیے، وقت وقت کی بات ہے وقت تو نمرود و فرعون کا بھی تھا لیکن آخری فتح انصاف کی ہوئی۔
دکاندار نے موقف اختیار کیا کہ پولیس 12 سے 20 گنا کرایہ بڑھانے کے لیے بلیک میل کرنا چاہتی ہے۔
محمود عالم ایڈووکیٹ نے بھی عدالت میں موقف اپنایا کہ 11ماہ کا کرایہ داری کا معاہدہ ہے جس کی سال بہ سال تجدید ہوتی رہتی ہے۔
واضح رہے درخواست میں ہوم سیکرٹری، آئی جی سندھ کو فریق بنایا گیا، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی سینٹرل کے علاؤہ کے پی آر ایف ڈبلیو ایس کے کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔