بھارت میں گزشتہ 10 سالوں کے دوران تاریخ مسخ کرنے، نت نئی تاریخ بتانے اور غلط معلومات کی بنیاد پر ہجومی تشدد پھیلانے کا سلسلہ بہت عام ہوا ہے۔
مزید پڑھیں
بی جے پی نے منظم انداز میں مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف نفرت پھیلائی ہے۔ انڈیا کے حکومت کے ناقد یوٹیوبرز اور کانگریس تاریخ کو مسخ کرنے اور نفرت کی منظم مہم کا سہرا واٹس ایپ یونیورسٹی کو دیتی ہے۔
بھارت کے حالیہ انتخابات میں واٹس ایپ یونیورسٹی کا ذکر بہت زیادہ ہو رہا ہے اور یہ واحد چیز ہے جس پر بی جے پی کے حامیوں کو ٹرولنگ کا سامنا رہتا ہے اور کسی بھی غلط بیانی پر انہیں ’واٹس ایپ یونیورسٹی سے معلومات‘ کا طعنہ دیا جاتا ہے۔
اس وقت ہندوستان کی واٹس ایپ یونیورسٹی میں سب سے زیادہ پڑھائے جانے والا موضوع ’ووٹ جہاد‘ ہے۔ بی جے پی عوام کو بتا رہی ہے کہ وہ ’ووٹ جہاد‘ کے ذریعے مودی کو ہٹانا چاہتے ہیں اور کانگریس کو اقتدار میں لانا چاہتے ہیں جو آپ کا سب کچھ چھین کر مسلمانوں کو دے دے گی۔ واٹس ایپ یونیورسٹی کے اس موضوع کا ذکر اب جلسوں میں بھی آ گیا۔
مودی اور ان کے حمایتیوں کو واٹس ایپ یونیورسٹی کا طعنہ
واٹس ایپ یونیورسٹی کا ذکر پہلی مرتبہ کس نے کیا یہ تو معلوم نہیں لیکن مین اسٹریم میڈیا یا سوشل میڈیا پر پہلی مرتبہ اس کا تذکرہ 4 مارچ 2021 کو اس وقت دیکھنے کو ملا جب کانگریس نے ایک ڈاکیومنٹری جاری کی جو سبھاش چندر بوس سے متعلق تھی اور یہ کہا کہ ’یہ ڈاکیومنٹری بی جے پی کی جھوٹی تشہیر کا مقابلہ کرنے کے لیے ہے، کیونکہ بی جے پی واٹس ایپ یونیورسٹی کے ذریعہ چیزوں کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہی ہے اور اس لیے پارٹی عوام کے سامنے صحیح چیزوں کو رکھ رہی ہے‘۔
اس ڈاکیومنٹری کے جاری کیے جانے کے 2 ہی دن بعد انڈیا کی تلنگانہ ریاست کے ایک وزیر راما راؤ نے بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’بی جے پی کے رہنما واٹس ایپ یونیورسٹی میں جھوٹ سیکھ رہے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے‘۔
حالیہ انتخابات میں انڈیا کے 3 یوٹیوبرز بی جے پی کی واٹس ایپ یونیورسٹی کو نشانے ر رکھے ہوئے ہیں۔ انڈیا کے ایک بڑے یوٹیوبر دریو راٹھی اپنے وی لاگ میں بی جے پی کی وٹس ایپ یونیورسٹی سے حاصل ہونے والی معلومات کے معاشرے پر اثرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کچھ ویڈیو کلپس دکھاتے ہیں ایک کلپ میں کسی ٹی وی شو میں بی جے پی کی ایک خاتون رہنما بتاتی ہیں کہ انڈیا کو آزادی لیز پر ملی ہے جو 99 سال مکمل ہونے پر ختم ہو جائے گی۔
ایک اور یوٹیوبر ہندوستان اشوک کمار پانڈے وٹس ایپ یونیورسٹی کی معلومات پر تبصرہ کرتے ہوئے انڈیا کی معروف اداکارہ کنگنا رناوت کی تقریر کا ایک حصہ شیئر کرتے ہیں جس میں وہ کہتی ہیں کہ انڈیا کو آزادی 2014 میں ملی۔ (2014 میں پہلی مرتبہ نریندر مودی وزیراعظم منتخب ہوئے تھے)۔ کنگنا رناوت نے اس سال بی جے پی کے ٹکٹ سے الیکشن میں حصہ لیا ہے۔ انڈیا کے نامور صحافی اور یوٹیوبر رویش کمار اپنے وی لاگ میں واٹس ایپ یونیورسٹی کے کام کرنے کا طریقہ بتاتے ہیں جو قارئین کے لیے دلچسپ ہو گا۔ وہ بتاتے ہیں کہ انڈیا کے تقریبا 70 لاکھ لوگ عالی شان ہاؤسنگ سو سائٹیوں میں رہتے ہیں اور ہر سوسائٹی کا ایک واٹس ایپ گروپ ہے جس میں کسی بھی حکومتی اقدام سے متعلق معلومات بتائی جاتی ہیں اور تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ ان واٹس ایپ گروپس کے ایڈمن کے گروپس بنائے گئے ہیں جن میں بی جے پی کے میڈیا سیل مطلوبہ معلومات پہنچاتے ہیں اور وہ پوری سوسائٹی تک پھیلائی جاتی ہیں۔ اسی طرح کئی گاؤں اور بستیوں کے بھی واٹس ایپ گروپس بنائے گئے ہیں جن سے غلط معلومات اور اقلیتوں کے خلاف نفرت آمیز مواد پھیلایا جاتا ہے۔
مسلمانوں اور سکھوں کے خاتمے میں ہندوؤں کی بقا کی جھانسا
اشوک کمار پانڈے کہتے ہیں کہ واٹس ایپ یونیورسٹی کے ذریعے ہندوؤں کو ڈرایا جاتا ہے کہ اگر تم مسلمانوں اور سکھوں کو ختم نہیں کرو گے تو وہ تم پر غالب آ جائیں گے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ واٹس ایپ کے ذریعے یہ بات بھی عام کی گئی ہے کہ مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں اور ان کی آبادی بڑھ رہی ہے ان کی آبادی زیادہ ہو گئی تو وہ ہندوستان سے ہندوؤں کو نکال دیں گے۔ اس طرح جہاں نفرت انگیز مواد پھیلایا جا رہا ہے وہیں انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے بیشتر اقدامات کو غلطی بتا کر ہندوستان کا غدار بتانے کی کوششیں کی اور مسلمانوں کا حامی بتایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ نہرو کی غلطیاں سدھارنے کے لیے نریندر مودی کا ساتھ دیں‘۔
پنڈت نہرو پر بی جے پی کی تنقید پر طنز کرتے ہوئے اشوک کمار پانڈے کہتے ہیں کہ ’کورونا ویکسین کا کریڈٹ صاحب (مودی) کا اور سائیڈ ایفیکٹس کے ذمہ دار نہرو جی، بات ختم‘۔
یوں منظم انداز میں ہندوستان کی اقلیتوں کا خوف پھیلا کر ان پر تشدد کے لیے ابھارا جاتا ہے
واٹس ایپ یونیورسٹی صرف سیاسی رہنماؤں اور یوٹیوبرز کے نشانے پر ہی نہیں بلکہ عوام اور طلبا بھی بی جے پی کا نام لیے بغیر واٹس ایپ یونیورسٹی کو نشانے پر رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں گریٹر نوئیڈا کی نجی یونیورسٹی میں جب بی جے پی کا طلبا ونگ کے لوگ نعرے لگاتے ہوئے آئے تو اس پر تنقید کرتے ہوئے ایک طالبعلم پرشانت بھوشن نے لکھا کہ ’کل نوئیڈا کی گلگوٹیا یونیورسٹی سے کچھ طلبہ کو کانگریس کیخلاف احتجاج کرنے کو بھیجا گیا، ان کی کتنی سمجھ ہے، کتنا پڑھ پاتے ہیں، آپ خود دیکھ لیجیے۔ اصل میں انہوں نے واٹس ایپ یونیورسٹی سے پڑھائی کی ہے‘۔
حال ہی میں انتخابی مہم کے دوران ہندوستان کے نوجوان سیاست دان کنہیا کمار نے دہلی میں اپنی تقریر کے دوران واٹس ایپ یونیورسٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اورعوام کو واٹس ایپ یونیورسٹی سے نکل کر ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔