ہم اسکول پر اسکول کھولتے گئے مگر تعلیم کے لیے کچھ نہیں کیا، راحیلہ درانی

جمعرات 16 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیر تعلیم بلوچستان راحیلہ درانی نے کہا ہے کہ ہم نے اسکول تو بنائے مگر ان کو قائم رکھنے رکھنے اور تعلیم کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کیا ہم بس اسکول پر اسکول کھولتے چلے گئے۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام پاکستان لٹریچر فیسٹیول (کوئٹہ چیپٹر ) کے دوسرے روز ’بلوچستان میں ہائر ایجوکیشن، ہم کہاں کھڑے ہیں‘کے موضوع پر سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسکولوں سے متعلق بریفنگ نے انہیں بہت مایوس کیا ہے۔

پروگرام میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، مختار احمد، وائس چانسلر بیوٹمز یونیورسٹی ڈاکٹر خالد حفیظ، ظہور احمدبازئی، غازی صلاح الدین، ڈاکٹر ضیاءالحسن اور صادقہ صلاح الدین نے بھی گفتگو کی جبکہ سیشن میں نظامت کے فرائض سید جعفر احمد نے انجام دیے۔

صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ درانی نے کہا کہ ہمارے پاس سب سے بڑا ڈیپارٹمنٹ ایجوکیشن میں اسکول کا ہے، طلبہ کی تعداد 11لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، 3ملین بچے پاکستان سے باہر ہیں، ہم نے کوئی حکمت عملی اختیار نہیں کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب عبد المالک بلوچ وزیراعلیٰ بلوچستان تھے ان کے دور میں 24 فیصد بجٹ تعلیم کے لیے رکھا گیا جو بہت بڑی بات تھی اس کے بعد بلوچستان میں تعلیم کو پھیلانے کے بجٹ بہت کم رکھا گیا۔

راحیلہ درانی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہ ہمارے اساتذہ بچوں کو صحیح تعلیم دینے میں ناکام ہوچکے ہیں اور 75سال گزرنے کے بعد بھی ہمارا معیار تعلیم بہتر نہیں ہوسکا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے یہ سمجھنا ہے کہ تعلیم ایک اہم فریضہ ہے، چیریٹی کلچر بہت عام ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل اپنی قابلیت سے ترقی کرنے کے بجائے تعلیمی میدان میں پیچھے ہوتے جارہے ہیں۔

بیوٹمز یونیورسٹی کے وائس چانسلر خالد حفیظ نے کہا کہ جو قومیں تعلیم پر توجہ دیتی ہیں وہ ترقی کرجاتی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں غیرتعلیم یافتہ لوگوں کو بھرتی کیا گیا جس سے تعلیم کا معیار خراب ہوا۔

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ اعلیٰ تعلیمی نظام چلانے کے لیے پہلے مسائل کو سمجھنا ہوگا، پاکستان کے تعلیمی نظام میں جدید دور کے حساب سے تبدیلی لانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اگر پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو ڈالر سے زیادہ معلومات پر توجہ دینی ہوگی۔ ڈاکٹر ضیاءالحسن نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

آج کل یونیورسٹیز میں ریسرچ پر نہیں ڈگری حاصل کرنے پر توجہ دی جاتی ہے، ہائر ایجوکیشن کمیشن کو چاہیے کہ تعلیمی سیکٹرز میں اپنا مثبت کردار ادا کرے۔

غازی صلاح الدین نے کہا کہ مجھے دنیا کے کیمپس دیکھنے کا بہت شوق ہے حالانکہ میں نے کبھی کیمپس میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیمپس نوجوانی کا جشن ہوتا ہے، جشن سے مراد پارٹی یا جلسہ کرنا بالکل نہیں، بڑے کیمپس میں طالب علموں پر تعلیم کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے۔

ان کاکہنا تھا کہ کیمپس وہ جگہ ہے جہاں مختلف لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور امریکن یونیورسٹیز کیمپس میں نئے خیالات اور نئی ایجادات کے بیج بوئے جاتے ہیں

صادقہ صلاح الدین نے کہا کہ تعلیم کا مسئلہ صرف بلوچستان میں نہیں بلکہ ہر صوبے میں ہے، ہم چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے ڈونر تلاش کرتے ہیں اگر ہمیں ملک کا مستقبل روشن چاہیے تو تعلیمی نظام پر توجہ دینی ہوگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp