خیبرپختونخوا میں آئندہ مالی سال کے بجٹ سے پہلے اچانک بڑی تعداد میں سرکاری ملازمین نے پینشن لینا شروع کردی ہے۔ محکمہ خزانہ کے مطابق، مارچ اور اپریل میں پینشن کی مد میں 21 ارب روپے کی ادائیگی ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں
محکمہ خزانہ کے ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر وی نیوز کو بتایا کہ بڑی تعداد میں سرکاری ملازمین کی جانب سے پینشن لینے سے خزانے پر برا اثر پڑا ہے، جبکہ پینشن سے متعلقہ مزید درخواستیں بھی آرہی ہیں۔
سرکاری ملازمین رضاکارانہ پینشن کیوں لے رہے ہیں؟
محکمہ خزانہ کے افسر نے بتایا کہ مارچ میں سب سے زیادہ پینشن کی مد میں 11 ارب روپے جبکہ اپریل میں 10 ارب روپے کی ادائیگی ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ آنے والے بجٹ سے پہلے پینشن لینے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے کیوں کہ ملازمین کو خدشہ ہے کہ حکومت پینشن میں کمی کردے گی۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر ملازمین مدت ملازمت ختم ہونے سے پہلے ہی پینشن کو ترجیح دے رہے ہیں۔
کیا خیبرپختونخوا حکومت پینشن کو ختم کررہی ہے؟
خیبر پختونخوا حکومت اپنے گزشتہ دور حکومت سے ہی پینشن اصلاحات پر کام کررہی ہے اور اس حوالے سے اصلاحات بھی متعارف کرا چکی ہے۔ محکمہ خزانہ کے ایک اور افسر نے وی نیوز کو بتایا کہ خیبرپختونخوا میں خزانے پر پینشن دباؤ کو کم کرنے کے لیے مزید اصلاحات پر کام جاری ہے۔ تاہم انھوں پینشن ختم کرنے کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت ایسی اصلاحات لا رہی ہے جن سے حکومت اور ملازمین دونوں کو فائدہ ہوگا کیوں کہ موجود حالات میں پینشن حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔
صوبائی محکمہ خزانہ کے افسر نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت پینشن اصلاحات کے حوالے سے وفاق سے بھی رابطہ کررہی ہے اور وفاقی حکومت بھی پینشن اصلاحات پر کام کررہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کی پینشن ان کی نسلیں لے رہی ہیں لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں، یہی نہیں بلکہ ایک ملازم 2، 2 جگہ سے بھی پینشن لے رہا ہے تو ان سب کو ریگولر کرنے لیے اصلاحات پر کام ہو رہا ہے تاکہ واضح کیا جاسکے کہ پینشن کس کو اور کب تک ملنی چاہیے۔
حکومت کیا اصلاحات لا رہی ہے؟
محکمہ خزانہ کے افسر کا کہنا تھا کہ پینشن میں اصلاحات کا عمل سابق وزیر خزانہ تیمور جھگڑا کے دور میں شروع ہوا تھا کیونکہ وہ پینشن اصلاحات کے معاملے میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دور میں پینشن سے متعلق کئی اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔ سرکاری افسر نے بتایا کہ موجودہ حکومت بھی انہی اصلاحات کو آگے بڑھا رہی ہے اور صوبائی حکومت ماہانہ پینشن کی جگہ ملازمین کو یکمشت ادائیگی کا نظام بھی متعارف کرا چکی ہے۔ اس نظام کے تحت نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ، ڈائریکٹوریٹس اور دیگر ملازمین کی پینشن ختم ہوچکی ہے جبکہ پرانے اور پبلک سروس کمیشن کے تحت آنے والے ملازمین کے لیے حکومت اصلاحات متعارف کرا رہی ہے جس سے خزانے پر بوجھ کم ہوگا۔
پینشن کمپوزیشن میں کمی
محکمہ خزانہ کے افسر نے بتایا کہ حکومت نئے آنے والے ملازمین کے لیے پینشن اصلاحات متعارف کرا سکتی ہے، حکومت نئے نظام میں پینشن کو ختم کررہی ہے لیکن پرانے ملازمین حکومت کے لیے سردرد ہیں جو پوری زندگی صرف پینشن کے لیے سرکاری ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں اور یہی ملازمین پینشن اصلاحات کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیوروکریسی بھی نہیں چاہتی کہ پینشن کا نظام ختم ہو۔
محکمہ خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ موجودہ حکومت پرانے ملازمین کے لیے اصلاحات لا رہی ہے، محکمہ خزانہ نے خزانے پر بوجھ کم کرنے کے لیے پنشن کمپوزیشن کو کم کرنے کی تجویز دی ہے جس میں کمپوزیشن کو موجودہ 65 فیصد سے کم کرکے 35 فیصد پر لایا جائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ اس سے ملازمین کو یکمشت ادائیگی کم ہوگی اور خزانے پر بھی بوجھ کم ہوگا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ اس سے ملازمین کو کوئی نقصان نہیں ہوگا اور ماہانہ پینشن میں اضافہ ہوگا۔ محکمہ خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ اس پر ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
پینشنر کی وفات کے بعد ادائیگی کس کو کتنے عرصہ تک جاری رہے گی؟
محکمہ خزانہ کے ذرائع نے مزید بتایا کہ پینشن اصلاحات کے حوالے سے کئی میٹنگز ہوئی ہیں جن میں اس بات پر غور کیا گیا کہ پینشن کی ادائیگی کب تک اور کس کس کو ہونی چاہیے۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت بچوں کو پینشن کی ادائیگی کا سلسلہ ختم کرنے جارہی ہے، پینشنر کی وفات کے بعد صرف اس کی بیوہ کو 10 سال تک پینشن کی ادائیگی ہوگی جس کے بعد پینشن دینے کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ موجودہ نظام میں پنشنر کے بعد بیوہ اور اس کے بعد غیرشادی شدہ بیٹے، بیٹی یا سب سے آخری اولاد کو پینشن کی ادائیگی جاری رہتی ہے جو کہ اب حکومت کے لیے مشکل ہوچکی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ ابھی واضح نہیں کہ بیوہ کو 10 سال تک پینشن کی ادائیگی کا فیصلہ پرانے کیسز پر لاگو ہوگا یا یہ شرط صرف نئے پینشنرز کے لیے ہوگی۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اب پینشن کو محدود کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔
سرکاری ملازمین کیا کہتے ہیں؟
احمد گل (فرضی نام) محکمہ تعلیم میں استاد ہیں اور ان کی مدت ملازمت ختم ہونے میں 4 سال باقی ہیں۔ احمد گل نے پینشن اصلاحات کو ملازم دشمن اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ پینشن اصلاحات کے نام پر حکومت جو کچھ کررہی ہے، اس سے ملازمین میں شدید بےچینی پائی جاتی ہے۔ احمد گل نے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے 30 سے زائد سال صرف اس نیت سے سرکار کو دیے کہ بڑھاپے میں پینشن سے اچھا گزارا ہوگا مگر حکومت اب پینشن کو ختم کررہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں عمر رسیدہ افراد کے لیے کوئی خاص مراعات نہیں ہیں اور مہنگائی آسمانوں سے باتیں کررہی ہے، ایسے میں تنخواہ سے بمشکل گزارا ہورہا ہے، اگر پینشن ختم کردیں گے تو گزارا کس طرح ہوگا۔