کیا صدر رئیسی کے بعد ایران عالمی تنہائی کی طرف لوٹ جائے گا؟

پیر 20 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایران ایک منفرد سیاسی نظام کا حامل ایک ایسا ملک ہے جہاں جمہوری طور پر منتخب قیادت ملک کے بارے میں مکمل طور پر آزادانہ فیصلے نہیں کر سکتی بلکہ اس پر سپریم لیڈر آیت اللہ اور سپاہ پاسداران انقلاب کی نگرانی رہتی ہے اور وہ ملک کی خارجہ اور داخلہ  پالیسی کی سمت طے کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں

گزشتہ روز ایرانی صدر ابراہیم رئیسی آذربائیجان کی سرحد کے قریب ایرانی حدود میں ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہو کر جاں بحق ہو گئے۔ ان کے ساتھ ان کے وزیر خارجہ عامر عبداللہیان اور صوبہ تبریز کے گورنر بھی حادثے کا شکار ہوئے۔ دونوں شخصیات گزشتہ ماہ پاکستان کے دورے پر تشریف لائیں اور خاص طور پر ایرانی وزیر خارجہ عامر عبداللہیان اس سال جنوری میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے خاصے سرگرم نظر آئے۔

ابراہیم رئیسی کے دور صدارت میں خطے کے لحاظ سے کئی اہم ترین کام سامنے آئے جن میں سے مندرجہ ذیل بھی خاصی نمایاں تھے۔

  • ایران سعودیہ امن معاہدہ ہوا۔

  • پاک ایران فوجی تنازعے کو چند روز میں حل کر لیا گیا۔

  • پہلی بار ایران نے براہ راست اسرائیل پر میزائل حملہ کیا۔

ابراہیم رئیسی کی شخصیت کیسی تھی اور کیا ان کی وفات سے ان کے دور میں شروع ہونے والی پالیسیاں برقرار رہ پائیں گی نیز ان کی حادثاتی موت سے خطے اور علاقائی امن کو کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اس حوالے سے وی نیوز نے مختلف ماہرین نے گفتگو کے دوران ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔

صدر رئیسی کی وفات صرف ایک موت نہیں ایک سیاسی موت ہے، ڈاکٹر ماریہ سلطان

ساؤتھ ایشین اسٹریٹجک اسٹیبلیٹی انسٹیٹوٹ کی چیئرپرسن اور ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ماریہ سلطان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر ابراہیم رئیسی کی وفات بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے جس سے جہاں ممکنہ طور پر ایران کی پالیسیوں میں تبدیلی نظر آ سکتی ہے وہیں خطے اور علاقائی امن کو خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران میں طاقت کے مراکز ایک سے زیادہ ہیں اور ایرانی خارجہ پالیسی کے 2 بنیادی ستون ہمیشہ سے رہے ہیں۔ ایک مذاکرات اور دوسرا مکمل عالمی تنہائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر رئیسی بنیادی طور پر مذاکرات اور بات چیت کے حامی تھے جبکہ ان کی شہادت سے ایران اپنی نظریاتی قیادت کی سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے ایک بار پھر عالمی تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر رئیسی کی وفات سے ایک چیز ہو گی کہ اب وہاں پر ترقی پسند قوتوں کے لیے جگہ کم ہو جائے گی۔

ڈاکٹر ماریہ سلطان کا کہنا تھا کہ یہ ایران کے پاسداران انقلاب ہی ہیں جو نان اسٹیٹ ایکٹرز کو پروان چڑھاتے ہیں اور جارحانہ عزائم رکھتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایران کی وہ قوت ہے جو اصلاحات کے خلاف ہیں اور اب جبکہ ایران میں ترقی پسند قوتوں کی گنجائش کم ہو جائے گی تو خدشہ ہے ایران کے اندر ردانقلاب کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدر رئیسی کی وفات کے بعد آیت اللہ خامنائی کا گروپ ایران کی خارجہ پالیسی پر غالب آ سکتا ہے جس سے پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں ایک بار پھر سے فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو سکتے ہیں۔

’ابراہیم رئیسی مغربی قوتوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے‘

صدر رئیسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ وہ مغربی قوتوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لے کر آئے۔ چین کے ساتھ 300 ارب ڈالر کی ڈیل کی، روس کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا، امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات کی ابتدا کی اور ایران کی دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ کشیدگی کو کم کیا۔

صدر رئیسی کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ پاکستان کے لیے انہوں نے تجارتی حجم بڑھانے کی بات کی تھی، بارڈر مارکیٹس کے لیے لائسنسز کا اجرا ہونا تھا۔

انہوں نے کہا کہ صدر رئیسی کی وفات سے وہاں کی قدامت پسند قوتیں غالب آ سکتی ہیں جو دنیا بھر میں جنگوں کے لیے معاونت فراہم کرتی ہیں اور اب خدشہ ہے پاکستان میں پھر سے فرقہ وارانہ فسادات شروع نہ ہو جائیں۔

’پاکستان پر میزائیل حملےکے بعد ایران کی سیاسی قیادت نے ہی حالات قابو کیے‘

ڈاکٹر ماریہ سلطان نے بتایا کہ ایران ک نظریاتی قیادت نے ہی پاکستان پر میزائل حملہ کیا تھا جس کے بعد وہاں کی سیاسی قیادت نے حالات کو قابو کیا۔ ایران میں ترقی پسند اور قدامت پسند قوتوں کے درمیان طاقت کے حصول کی جنگ تو چل ہی رہی تھی۔ قدامت پسند قوتوں کے غالب آنے سے نہ صرف مشرق وسطٰی بلکہ پورے خطے کے امن کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

ایران میں سیاسی قیادت بدلنے سے پالیسیاں تبدیل نہیں ہوتیں، سید محمد علی

ماہر امور قومی سلامتی سید محمد علی نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی وفات کو 3 اعتبار سے دیکھا جائے گا کہ اس کے ایران کے سیاسی نظام پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، خطے پر اس کے کیا اثرات ہوں گے اور پاک ایران تعلقات پر اس کے اثرات کیا ہونگے۔

سید محمد علی نے کہا کہ ایران کا سیاسی نظام اس حوالے سے منفرد ہے کہ وہ پالیسی اور فیصلہ سازی کے ضمن میں تزویراتی اہداف، نظریاتی سوچ، جمہوری اور سیاسی عوامل کا اسلوب لیے ہوئے ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران میں سرکاری حکام کی تبدیلی سے وہاں پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہتا ہے، پھر چاہے وہ مغرب کے حوالے سے ایران کی پالیسی ہو، مسئلہ فلسطین یا پھر چین اور روس کی طرف جھکاؤ، ایران کی پالیسیوں میں تغیر نظر نہیں آتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ افراد کی تبدیلی سے صرف ایرانی نظام میں ان پالیسیوں کے روبہ عمل ہونے کے طریقہ کار میں تبدیلی آ جاتی ہے جبکہ بنیادی سمت وہی رہتی ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ سابق صدر محمود احمد نژاد کا مغربی طاقتوں کی طرف جارحانہ رویہ تھا اس لیے ان کے دور میں ایران کی مغربی قوتوں کے ساتھ مخاصمت میں اضافہ ہوا جبکہ ان کے بعد آنے والے صدر حسن روحانی نرم خو طبیعت کے مالک تھے اور ان کے دور میں ایران کا 6 ملکوں کے ساتھ جوہری معاہدہ ہوا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے ایران کا مغربی قوتوں کے حوالے سے نظریہ بدل گیا یا ان کے بنیادی اہداف میں تبدیلی آئی۔

’ابراہیم رئیسی کے دور میں سعودیہ سے سفارتی روابط بہتر ہوئے‘

 ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دور میں ہونے والے اہم کاموں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سید محمد علی نے کہا کہ ان کے دور میں ایران اور سعودی عرب کے سفارتی روابط میں بہتری آئی، ایران نے پہلی بار اسرائیل پر براہ راست میزائل حملہ کیا۔ پاکستان کے حوالے سے غیر معمولی کشیدگی سامنے آئی لیکن اس کو فوری طور پر بردباری اور دانشمندی کے ساتھ حل کیا گیا۔

پاک ایران تعلقات کے مستقبل پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کے بارے میں دیکھنا پڑے گا کہ ایران پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے اپنے پاکستان کے دورے میں پاکستان کے ساتھ تجارتی حجم 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کی بات کی تھی۔

سید محمد علی نے کہا کہ اس وقت پاکستان جن معاشی مسائل کا شکار ہے پاکستان اگر ایران کے ساتھ تجارت کا آغاز کرے تو اس سے ہماری صنعت و تجارت کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے اور ہمارا بیرونی قرضوں پر انحصار کم ہو جائے گا۔

ایران کے لیے بڑا نقصان ہے، دنیا کے لیے کہنا قبل ازوقت ہے، مسعود خالد

پاکستان کے سابق سفیر مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے لئے بلاشبہ یہ ایک بڑا نقصان ہے تاہم دنیا کے لیے نقصان ہے یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔

مسعود خالد نے کہا کہ ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو حادثے کے بارے میں ابھی بہت ساری سازشی تھیورییز آئیں گی اور سازشی تھیوریز کو اسرائیل کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے، موسم خراب تھا تو ہیلی کاپٹر میں سفر کیوں کیا وغیرہ۔

مسعود خالد نے کہا کہ بنیادی طور پر ابراہیم رئیسی بھی سخت گیر خیالات کے حامل ایرانی صدر ہی تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp