ایران کے سپریم لیڈر نے 5 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے تاہم موت کی تصدیق ہونے کے بعد ملک میں آتش بازی اور خوشی کا سماں بھی دیکھا گیا۔
مزید پڑھیں
گارجین کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایران میں سرگرم کارکنوں نے کہا ہے کہ ملک کے صدر ابراہیم رئیسی کی موت پر سوگ منانے کا بہت کم موڈ ہے۔ ابرہیم رئیسی اتوار کو آذربائیجان کی سرحد کے قریب ہیلی کاپٹر کے حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور ہیلی کاپٹر میں سوار دیگر مسافروں کی ہلاکت کے بعد 5 روزہ عوامی سوگ کا اعلان کیا۔ تاہم گارجین سے بات کرنے والے ایرانیوں نے ’ایک ایسے شخص کی موت پر افسوس کا اظہار کرنے سے انکار کر دیا ہے جو ان کے بقول 4 دہائیوں کے سیاسی کیریئر میں سینکڑوں اموات کا ذمہ دار تھا‘۔
ابراہیم رئیسی کے دور میں ہی 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے جو ایران کے سخت حجاب قوانین کے تحت پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد پولیس کی حراست میں انتقال کر گئی تھیں۔
وومن، لائف، فریڈم مظاہروں کے دوران 19,000 سے زیادہ مظاہرین کو جیل بھیج دیا گیا، اور کم از کم 500 مارے گئے- جن میں 60 بچے بھی شامل تھے۔
ریاستی میڈیا کے ذریعے رئیسی کی موت کی تصدیق ہونے سے چند گھنٹے قبل، ٹیلی گرام پر ایسی ویڈیوز پھیلائی گئیں جن میں جشن منانے والی آتش بازی دکھائی گئی جن میں سے ایک مہسا امینی کے آبائی شہر ساقیز سے ہے۔ ملک کے اندر اور باہر کے ایرانیوں نے رئیسی کے سیاسی مخالفین پرمبینہ جبر کی دنیا کو یاد دلانے والی پوسٹس شیئر کیں۔
صدر کی موت کے بارے میں بات کرتے ہوئے، مہسا امینی کے احتجاج کے دوران سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے ایک نوجوان کے خاندان کے رکن نے کہا کہ ’رئیسی کی روح کو کبھی سکون نہیں ملے گا کیونکہ اس نے میرے بھائی اور میرے وطن کے بچوں کو قتل کیا۔ وہ قاتل تھا جس نے اتنے بچوں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ میرے بھائی کی روح کو سکون تبھی ملے گا جب اس جیسے دوسرے لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ تب تک، ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں‘۔
مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والوں میں 62 سالہ مِنو مجیدی بھی شامل تھیں، جنہیں سیکیورٹی فورسز نے قریب سے گولی مار کر 160 سے زیادہ پیلٹ مارے۔ اس کی بیٹیوں نے لاپتہ ہیلی کاپٹر کی خبر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی ایک ویڈیو شیئر کی۔
مجیدی کی بیٹی مہسا نے کہا کہ ’ہم خوش ہیں کیونکہ وہ قاتل تھے، رئیسی نے میری والدہ کو قتل کرنے کا حکم دیا‘۔
تاہم ملک میں اس پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ تہران میں مقیم ایک رپورٹر نے کہا کہ ’بہت سے فوجی ایجنٹ گزشتہ رات سے گلیوں اور یہاں تک کہ چھوٹے چوکوں پر تعینات ہیں۔ پولیس نے بارہا خبردار کیا ہے کہ جو لوگ صدر کی موت پر خوش ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ لوگ آتش بازی کر رہے تھے، موسیقی سن رہے تھے اور رقص کر رہے تھے اور ٹریفک میں موجود لوگ جشن منانے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہارن بجاتے رہے۔