الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کے بارے میں وکلا اور ماہرین میں واضح تقسیم نظر آ رہی ہے۔
اس حوالے سے جب وی نیوز نے ماہرین سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی تو کچھ نے اسے خوش آئند قرار دیا تو کسی نے اس فیصلے پر پاکستان الیکشن کمیشن کو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب گردانا۔
سابق چیف الیکشن کمشنر کنور دلشاد نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ آئین اور قانون کے تحت الیکشن کمیشن کا فیصلہ مکمل طور پہ قانونی ہے اور سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ کنور دلشاد سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن ایک مکمل طور پر آزاد اور خودمختار ادارہ ہے اور اسے اپنے اختیارات کو استعمال کرنا چاہیے۔
سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان عرفان قادر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کی تاریخ دے کر واضح طور پر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تھا کیونکہ الیکشن کی تاریخ دینا کسی طور بھی سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ انہوں نے گزشتہ سماعتوں پر سپریم کورٹ کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کو عدالت طلب کرنے پر بھی اظہار تاٗسف کیا تھا اور کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ کسی صورت بھی سپریم کورٹ جج سے کم نہیں۔
معروف قانون دان حامد خان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پینجاب میں انتخابات کو ملتوی کر کے نہ صرف آئین کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ عدالتی فیصلے اور صدر مملکت کی جانب سے الیکشن کی تاریخ کے اعلان کی بھی خلاف ورزی ہے جو الیکشن کمیشن ہی کی مشاورت سے کیا گیا۔
حامد خان کا کہنا تھا آئین کے مطابق الیکشن کمیشن نوے دن میں انتخابات کرانے کا پابند ہے پھر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم جاری کیا اور الیکشن کمیشن کی مشاورت سے جب صدر نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا تو الیکشن کمیشن اپنے اس فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ ایک سوال کے جواب کہ آیا سپریم کورٹ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر سکتا تھا، اس پر حامد خان نے کہا کہ جب بھی آپ کو آئین کی تشریح درکار ہوتی ہے تو آپ سپریم کورٹ سے ہی رجوع کرتے ہیں اور اس معاملے میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وکلا کی ٹیم میں شامل بیرسٹر گوہر علی خان کہتے ہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ بالکل غلط اقدام ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس سے پہلے آرٹیکل 105 کے بارے میں فیصلہ دیا تھا کہ آئین کی رو سے اسمبلیاں تحلیل ہونے کے نوے روز کے اندر اندر انتخابات کا انعقاد لازم ہے لیکن اب الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے موجودہ فیصلے میں کہہ رہا ہے کہ اس کے لیے فری اینڈ فیئر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ صوبے میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال ہے، وزارت خزانہ کے پاس فنڈز نہیں اور سکیورٹی پرسنلز الیکشن میں ڈیوٹی کے لئے میسر نہیں۔
گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی صورتحال کی وجہ سے تو یہ خیبر پختونخواہ میں بھی انتخابات کا التواء کریں گے۔ گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ پولنگ ڈے کو آگے لے کر جایا جا سکتا ہے لیکن اس معاملے میں الیکشن کمیشن نے پہلے انتخابات ملتوی کر کے اور اس کے بعد الیکشن کی تاریخ دے کر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے اور آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ ممکنہ طور پر یہ معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ کی جانب جاتا دکھائی دیتا ہے۔