گردو پیش کے مجموعی منظرنامے پر ایک بے مہر اونگھ اور بے حس غنودگی کا غلبہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ نہ صرف اداروں کی تکریم اور کارکردگی سوالیہ نشان بنتے جا رہے ہیں بلکہ وطن عزیز کو خلا میں جھولتی ہوئی ایک بے سمت سیاست کا سامنا بھی ہے۔
زوال پذیر سیاست کا اندازہ اس سے لگائیں کہ نواز شریف نے دو ہزار اٹھارہ میں اپنی معزولی کے بعد ووٹ کو عزت دو اور آئین و قانون کی بالادستی کا جو مبنی بر حقیقت ایک طاقتور سیاسی بیانیہ اٹھایا تھا وہ اب پی ڈی ایم حکومت کی نا اہلیوں تلے کب کا دب چکا ہے۔ افراد کی تبدیلی مفادات کے تصادم اور عمران خان کی ‘سرکشی‘ نے طاقت کی راہداریوں کی سوچ کا زاویہ ایک اور سمت میں موڑا تو معتوب سیاستدانوں خصوصاً شریف خاندان کا بخت پھر سے جاگ اٹھا۔
نئے منظر نامے کی تخلیق سے شریف خاندان کے ناموں کے گرد کھینچی گئی وہ سرخ لکیر طاقت اور اقتدار کی کشمکش سے نہ صرف حرف غلط کی مانند مٹ چکی بلکہ راندہ درگاہ شریف خاندان پر اقتدار کے دروازے بھی کھلے اور مزید کھلتے بھی چلے جا رہے ہیں۔
یہی وقت بیانیے سے انحراف کا وہ موڑ ٹھہرا جب نواز شریف خاموش دکھائی دیے، جبکہ ان کی بیٹی مریم نواز کے رویے میں وہ تبدیلی دیکھنے میں آئی جو دوران اقتدار عمران خان کا خاصا سمجھا جاتا تھا۔ یعنی ایسٹیبلشمنٹ کی رضامندی اور اقتدار کا حصول اور بس۔
جب سے اقتدار کا ہما ایک بار پھر جاتی امرا کے دیوار پر آ بیٹھا ہے تب سے سویلین بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کی کوئی نحیف سی آواز تو کیا کوئی مبہم سا اشارہ بھی یہ گواہی نہیں فراہم کر سکتا کہ بیانیے کا اب کوئی سیاسی دعویدار موجود ہے یا اسے ’اون‘ کیا جا رہا ہے۔ گویا اقتدار کو سول بالادستی کے بیانیے پر فوقیت دی گئی ہے۔
اور اب شہباز شریف کی ڈری سہمی وزارت عظمیٰ اور مریم نواز کی ’پنجابی سیاست‘ جس پر دوسری قومیتوں کو نظر انداز کرنے اور خصوصاً پختون تعصب کا رنگ بہت نمایاں ہے (جس کا سب سے بڑا ثبوت زمان پارک میں پختونوں کی موجودگی اور اس حوالے سے مریم کا ہتک آمیز بیان ہے)، جب کہ سیاست اور مقبولیت کا سابق منبع اور سول بالادستی کے بیانیہ کے داعی نواز شریف پر بھی ایک پُر اسرار سکوت طاری ہے۔
ان عوامل نے مدتوں سے مقبول نواز شریف کی سیاسی مقبولیت پر بہر حال ایک توجہ طلب سوال بھی اٹھا دیا ہے، لیکن سیاسی میدان میں لکیر کی دوسری سمت صورتحال اول الذکر سے بھی زیادہ دگرگوں ہے۔کیونکہ عمران خان اقتدار کے حصول کے لیے ایک ایسی غیر دانشمندانہ اور سفاکانہ سیاست پر اتر آئے ہیں جس میں ملکی استحکام جمہوریت کی بالادستی اور عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کے بجائے ہر مخالف کو ملیا میٹ کرنے، اداروں پر کیچڑ اچھالنے عالمی سطح پر ملکی امیج کو برباد کرنے اور گالم گلوچ کا لہجہ اپنانے کا رنگ نمایاں ہیں۔
خان صاحب کی سیاست کا حرف آخر یہ ہے کہ مجھے اقتدار دو اور میرے ہر مخالف کو مٹا کر رکھ دو، ورنہ میری زبان اور سامنے موجود کم فہم ہجوم تخریب و تباہی سے تہمت و دشنام تک کی طاقت سے لیس ہے۔ جب کہ حالیہ دنوں میں خان صاحب پارلیمان سے الیکشن کمیشن تک اور عدالتوں سے زمان پارک تک اس کا عملی مظاہرہ بھی دکھا چکے ہیں۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ اقتدار میں رہ کر اور اقتدار سے باہر عمران خان کی اس سیاست کا ملک و قوم کو فائدہ کیا ہوا ؟
اسی طرز سیاست سے خان صاحب کے ہاتھ ایک ایسا ہجوم آیا جس نے ان کی سیاسی مقبولیت اور طاقت کو بڑھاوا تو دے دیا مگر اس کے ساتھ ہی جھوٹ مکر و فریب، گالم گلوچ اور بد تہذیبی کا زہر بھی سیاست میں سرایت کر گیا ہے۔جس نے سنجیدہ حلقوں کو قومی شعور اور احساسِ ذمہ داری (خصوصا نوجوان نسل )کے حوالے سے حد درجہ فکر مند اور رنجیدہ کر دیا ہے۔
موجودہ منظر نامے میں دوسری سیاسی جماعتوں کے حوالے سے بھی ایک غیر روایتی لیکن پریشان کن صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے۔ جمہوری جدوجہد میں ہمیشہ سے پیش پیش رہنے والی پیپلزپارٹی ایک عرصے سے سناٹے کی کیفیت میں ہے۔ گو کہ آصف علی زرداری گاہے ایک زیرک سیاسی مکینک کے طور پر بعض اوقات سرگرمی دکھاتے ہیں لیکن یہ خلاف فطرت عوامی لہر سے الگ ایک ڈرائنگ روم سیاست اور جوڑ توڑ کا میکانکی عمل ہوتا ہے جو کسی سیاسی لیڈر کے گھر اور میڈیا کے درمیان جھولتا رہتا ہے۔جب کہ ماضی میں پیپلزپارٹی کا مزاج حد درجہ عوامی اور اس طرز سیاست سے یکسر مختلف رہا ہے۔
عمران حکومت کے دوران جمہوریت کے داعی اور سب سے زیادہ جارحانہ رویے کے حامل مولانا فضل الرحمن کی کُل سیاست بھی دو چار وزارتوں تلے دبی محسوس ہو رہی ہے۔ نہ اسلامی انقلاب کا نعرہ مستانہ بلند ہو رہا ہے اور نہ ہی جمہوریت کا علم لہرایا جا رہا ہے۔
یوں تو مولانا مضبوط اعصاب دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن باخبر لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ عمران خان کی مقبولیت سے کافی خوفزدہ ہیں۔ خصوصاً اپنے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان میں انہیں ناپختہ لیکن حد درجہ مقبول حریف علی امین گنڈاپور کا سامنا ہے، جب کہ مولانا اور ان کی جماعت کو پی ٹی آئی کی جانب سے ایسی ہی صورتحال کا سامنا ٹانک، لکی مروت اور بنوں کے اضلاع میں بھی درپیش ہے۔ ایک قریبی عزیز کے مطابق بعض مالی معاملات اور اس حوالے سے ہونے والی چہ میگوئیاں مستقبل میں ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر سکتی ہیں۔
اگر اے این پی کی بات کریں تو وہ بھی ایک عرصے سے غنودگی کی کیفیت میں ہے۔ سر دست اس پارٹی کا سب سے بڑا مسئلہ لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ کیونکہ اسفندیار ولی خان کی بیماری اور ایمل ولی خان کے نیم پختہ رویے نے باچا خان اور ولی خان کی سیاسی روایت پر سوال اٹھا دیا ہے۔
جس سیاسی روایت کو ان کی برد بار اور پرخلوص رویے نے نہ صرف چار چاند لگا دیے تھے بلکہ سخت جان اور دلیر سیاسی کارکنوں کو بھی جنم دیا تھا موجودہ صورتحال ماضی کے برخلاف متضاد سمت میں جاتی محسوس ہو رہی ہے۔
بلوچستان میں اُس کی روایتی سیاسی جماعتیں بشمول محمود خان اچکزئی اور بلوچستان نیشنل پارٹی نہ صرف تذبذب کا شکار دکھائی دیتی ہیں بلکہ قومی سیاست سے بیزاری کی حد تک الگ ہیں۔ تاہم ان کی سیاست پر بلوچستان کے مخصوص حالات کی وجہ سے اشتعال اور ناراضگی کا غلبہ ہے۔
جماعت اسلامی ایک عرصے سے معدوم ہو چکی تھی، لیکن سیلاب زدگان کی قابل ستائش مدد، گوادر میں جماعت کے رہنما مولانا ہدایت اللہ کا مقامی لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف مسلسل اور دلیر احتجاج اور حیرت انگیز مقبولیت اور کراچی میں جماعت اسلامی کے نوجوان رہنما حافظ نعیم الرحمن کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ جماعت کی ذیلی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن کی بہترین کا رکردگی جماعت کو مقبولیت اور پسندیدگی کے راستے پر ڈالنے کےلیے کافی ہیں۔ بشرطیکہ سراج الحق صاحب، سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم کی مانند فعال اور متحرک ہو جائیں۔
بحیثیت مجموعی اس وقت یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے سیاسی جماعتیں کسی غنودگی کی کیفیت میں ہیں۔ جس نے سیاسی عمل کو کسی سرگرم تحریک اور بیانیے کی بجائے ایک ابہام اور انتشار کی طرف دھکیل دیا ہے۔