رانا ثنا اللہ کی مُدبرانہ تجویز۔ ۔ ۔ ۔ !

ہفتہ 1 جون 2024
author image

محمد اقبال

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور وزیراعظم کے مشیر خصوصی رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ ملک میں محاذ آرائی کی کیفیت کا قصور وار کوئی ایک نہیں سیاستدان، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ تینوں ہیں۔ موجودہ صورت حال سیاستدانوں، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کسی کے بھی حق میں نہیں ہے۔ الزام تراشیاں ہر طرف سے ہو رہی ہیں اس لیے تینوں فریقین کو مل بیٹھ کر ملک کو بحرانوں سے نکالنا ہو گا اور معاملات کو سلجھانا ہو گا۔ اب واحد حل یہی ہے کہ ماضی کو بُھلا کر نیا آغاز کیا جائے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں اقتدار کی کشمکش، نظریاتی اختلافات، سیاسی محاذ آرائی اور اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی بھیانک تاریخ ہی وہ واحد مسئلہ ہے جس نے 76 سال گزر جانے کے بعد بھی استحکام کی کونپل کو پنپنے نہیں دیا۔

ملک میں جاری محاذ آرائی اور ٹکراؤ کی سیاست کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے اگر رانا ثنا اللہ کی طرف سے سیاستدانوں اور ملکی اداروں کو دی گئی اس مدبرانہ تجویز کا تاریخی پس منظر میں جائزہ نہ لیا جائے تو یقیناً بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔

پاکستان 1947 میں جب ایک طویل جدوجہد کے بعد برطانوی نو آبادیاتی تسلط سے آزاد ہوا تو ایک محب وطن اور مضبوط سیاسی قیادت کا بحران ہی اس نوزائیدہ ریاست کے لیے سب سے پہلا چیلنج بن کر سامنے آیا۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح جن کا نظریہ ہی ایک جمہوری اور فلاحی اسلامی ریاست کا قیام تھا، صرف ایک سال ہی اپنے ملک کی قیادت کر سکے۔ 1948 میں ان کی وفات کے بعد سے اس نوزائیدہ ریاست میں اقتدار کی کشمکش اور سیاسی محاذ آرائی کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک ناسور بن کر ملک کو کھوکھلا کیے جا رہا ہے۔

سیاسی محاذ آرائی اور اقتدار کی اسی کشمکش میں ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو پاکستان کی آزادی کے محض 4 برس بعد قتل کر دیا گیا۔ اس قتل نے اسی وقت ملک کے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے لیے ایک رخ کی نشاندہی کر دی تھی۔

لیاقت علی خان کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین نے گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزارتِ عظمیٰ سنبھال لی اور بیورو کریٹ غلام محمد گورنر جنرل بن گئے۔ اسی دوران پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں مسلم لیگ کے 60 ارکان کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے۔

1951 کے انتخابات میں صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں واضح برتری کے باوجود اپوزیشن نے مسلم لیگ پر دھاندلی کے الزامات عائد کر کے اختلافات کی داغ بیل ڈال دی۔ اسی دوران احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک نے شدت اختیار کی تو اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے بحران کو بنیاد بنا کر 17 اپریل 1953 کو خواجہ ناظم الدین کو وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کر دیا اور محمد علی بوگرہ کو وزیرِ اعظم مقرر کر دیا۔ ایک سال ہی بمشکل گزرا تھا کہ غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی تحلیل کر کے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی۔

گورنر جنرل کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اس اقدام کے خلاف دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے تو اسپیکر کی درخواست قبول کرتے ہوئے گورنر جنرل کے خلاف فیصلہ دیا۔ مگر اس وقت کی فیڈرل کورٹ(موجودہ سپریم کورٹ) نے گورنر جنرل کے اسمبلی تحلیل کے اقدام کو بحال رکھا، یہی وہ عدالتی فیصلہ تھا جس سے پاکستان میں ‘نظریۂ ضرورت’ کی اصطلاح سامنے آئی اور یوں پہلی بار سیاسی مقاصد کے لیے عدلیہ کا کندھا استعمال ہوا۔

اسی دوران 1956 میں پہلی بار ملک کا آئین تو بن گیا لیکن ساتھ ہی محلاتی سازشوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ملک میں عام انتخابات سے قبل ہی اسکندر مرزا نے 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لاء نافذ کر دیا۔

آئین کی معطلی کے بعد اسکندر مرزا ملک کے صدر بن گئے لیکن ان کا اقتدار زیادہ دیر نہ چل سکا اور پاکستانی فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لیا۔ یہی وہ وقت تھا جب سیاستدان، فوج اور عدلیہ کھل کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے۔

جنرل ایوب خان نے سیاستدانوں کو دیوار کے ساتھ لگانے کے اقدامات شروع کر دیے اور سیاستدان فوج کے اقتدار میں آنے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ یوں اس محاذ آرائی اور ٹکراؤ کے درمیان ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کو آتے آتے 23 برس لگ گئے۔

اگرچہ جنرل ایوب خان کی حکومت نے اہم معاشی اور سماجی اصلاحات متعارف کروائیں لیکن سیاسی اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش میں سیاستدان ان کے خلاف عوام کو لے کر سڑکوں پر نکل آئے۔ سال 1969میں ایوب خان نے مجبوراً استعفیٰ دیا تو اقتدار عوامی نمائندوں کی بجائے جنرل یحییٰ کے ہاتھ میں سونپ دیا۔ جنہوں نے ملک میں دوسری بار مارشل لاء نافذ کر دیا اور اپنے اقتدار کے لالچ میں شیخ مجیب الرحمان کے ہاتھوں ملک کو دو لخت کرا ڈالا۔

پاکستان کے وجود کی پہلی دہائی میں ہی حکومت میں بار بار تبدیلیوں، اقتدار کی کشمکش، سیاسی رسہ کشی، کمزور سیاسی اداروں اور مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھتے بڑھتے اژدھا بن گئی تھی جس نے نہ صرف 1965 کی جنگ مسلط کی بلکہ 1971 میں پاکستان کے مشرقی صوبہ بنگال کو بھی نگل لیا۔

جنرل ایوب خان کا 8 سال تک ساتھ دینے اور ان کی کابینہ میں 6 وزارتیں حاصل کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ایوب سے راہیں جدا کر کے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنالی، ذوالفقار علی بھٹو نے 1970 کے انتخابات میں مغربی پاکستان میں شاندار کامیابی حاصل کرکے خود کو ایک نئی سیاسی طاقت کے طور پر بھی منوا لیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی کامیابی جنرل یحییٰ کے لیے قابل قبول نہ تھی، اس طرح ان کے درمیان اقتدار کے لیے ایک نئی کشمکش شروع ہوئی، سانحہ مشرقی بنگال کے باوجود جنرل یحییٰ اقتدار سے الگ ہونے کو تیار نہ تھے تاہم مشرقی پاکستان کی علاحدگی کے بعد اندرونی دباؤ کے باعث وہ استعفی دینے پر مجبور ہوگئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا اور اپریل 1972 میں سیاسی دباؤ کے سبب انہوں نے مارشل لاء ختم کرنے کا اعلان کیا۔

14 برس کے طویل مارشل لاء کے بعد ملک کی بھاگ ڈور سیاسی قیادت کے ہاتھ تو آئی لیکن سیاستدانوں، بیورکریٹس اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان محاذ آرائی نے دوبارہ سر اٹھا لیا۔ 1977 کے عام انتخابات کے بعد جنرل ضیا الحق نے ملک کو 1973 کا آئین دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

اسی دوران ’سیاسی جماعتوں کے مابین نفرتوں میں شدت آ گئی۔ بھٹو اور اینٹی بھٹو دو کیمپ بن گئے، جمہوریت ایک بار پھر ڈی ریل ہو گئی۔ سیاسی کارکنوں پر بد ترین تشدد کے علاوہ لاہور ہائیکورٹ کے اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی سربراہی میں عدلیہ کے 5 رکنی بینچ نے اکثریتی رائے کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی اور یوں ملک میں جاری عدم استحکام کی کھائی مزید گہری ہوتی چلی گئی۔

1988 کے طیارہ حادثے میں ضیا الحق کی وفات کے بعد سویلین حکمرانی کا ایک مختصر دور شروع ہوا، جس میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جیسے رہنماؤں کی قیادت میں جمہوری سیاست کی واپسی ہوئی لیکن سیاستدانوں کی آپس کی محاذ آرائی کے باعث جمہوریت کی جڑیں مضبوط نہ ہو سکیں اور کوئی بھی اسمبلی اپنی 5 سالہ مدت پوری نہ کر سکی۔

اقتدار کی اسی کشمکش کے درمیان جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ کر 2008 تک اقتدار حاصل کر لیا۔ نواز شریف کو جلا وطن کر دیا گیا، پی سی اُو ججز کے معاملے پر جنرل پرویز مشرف (فوج) اور عدلیہ آمنے سامنے آ گئے اور ملک میں جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی خوفناک تحریک چل پڑی۔

جنرل پرویز مشرف کو مجبوراً ’این آر او‘ دینا پڑا جس کے نتیجے میں جلا وطن نواز شریف اور بے نظیر بھٹو وطن واپس آئے۔ میثاق جمہوریت ہوا لیکن اسی خلفشار میں بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا جس سے ایک نیا بحران پیدا ہوا اور مجبوراً اقتدار پیپلز پارٹی کے حوالے کرنا پڑا۔

بد ترین لوڈشیڈنگ میں گری پیپلز پارٹی حکومت نے اقتدار مکمل کیا تو ملک میں ہونے والے 2013 کے عام انتخابات میں نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) بھاری اکثریت سے اقتدار میں آ گئی۔ نواز شریف حکومت نے جنرل راحیل شریف کی حمایت کے ساتھ ابھی نظام پاؤں پر کھڑا ہی کیا تھا کہ فوجی قیادت کے تبدیل ہوتے ہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان انسداد بدعنوانی کا نعرہ لے کر سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت کے خلاف لانگ مارچ، دھرنوں اور احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا۔

ن لیگی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان کی قیادت میں 2018 کے عام انتخابات میں پہلی بار پی ٹی آئی مرکز میں بر سر اقتدار آئی تو انتقام اور محاذ آرائی کی سیاست کا سلسلہ ایک نیا روپ لے کر چل پڑا۔ کرپشن، بد عنوانی، لوٹ مار کے الزامات کو لے کر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو جیل بھیج دیا گیا۔

عمران خان پر عدلیہ سے مقدمات بنوانے اور انہیں اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے عمل درآمد کرائے جانے کے الزامات سامنے آئے۔ یوں محاذ آرائی ایک بار پھر عروج پر پہنچ گئی، مرکز میں عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو حکومت سے الگ ہونا پڑا، جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عمران خان نے اسمبلیاں توڑ دیں۔ یوں، اسٹیبلشمنٹ کی تعریفوں کے پل باندھنے والے عمران خان اچانک اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو گئے۔ پھر 9 مئی جیسا دلخراش سانحہ پیش آیا اور پچھلے وقتوں کے لاڈلے عمران خان پر بے شمار مقدمات دائر ہوئے اور آج وہ جیل میں ہیں۔

2018 کی طرح 2024 کے انتخابات کو بھی تاریخ کے متنازع ترین انتخابات قرار دیا جا رہا ہے۔ ٹکراؤ اور محاذ آرائی کا سامان پھر سے تیار ہے۔ سیاستدانوں، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ آج بھی اسی شد و مد سے جاری ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ 1947 سے 2024 تک کچھ بھی نہیں بدلا۔ تاریخ کا آئینہ دکھانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ ملکی عدم استحکام کے پیچھے وہی 3 کردار ہیں جن کی نشاندہی رانا ثنا اللہ نے کی ہے۔

یقیناً اگر ٹکراؤ اور محاذ آرائی کی سیاست کا خاتمہ نہ ہوا تو اس کے ملک پر لگنے والے گھاؤ مزید گہرے ہوتے چلے جائیں گے۔ ان گھناؤنے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو رانا ثنا اللہ نے پیش کر دیا ہے۔ ملک کے استحکام، خوشحالی اور روشن مستقبل کے لیے ضروری ہو گا کہ سیاستدان، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ ماضی کی اپنی اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں اور مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کریں۔ ٹکراؤ اور محاذ آرائی کی روایت کو اب ترک کرنا ہو گا۔ کیونکہ یہ ملک ہم سب کا ہے اور ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل یہاں ہی محفوظ بنانا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp