پنجاب میں اس وقت پبلک یونیورسٹیوں کی تعداد 34 کے قریب ہے، جن میں سے اب تک 25 یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلر تعینات نہیں کیے جاسکے ہیں۔
مزید پڑھیں
لاہور میں پنجاب یونیورسٹی سمیت 4 ایسی یونیورسٹیاں ہیں جہاں پر پچھلے ایک یا 2 سال سے نگران سیٹ اپ کے ذریعے معاملات چلائے جارہے ہیں، بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی، بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ،لیّہ ، جھنگ، اوکاڑہ، کمالیہ، سرگودھا، رحیم یار خان کی یونیورسٹیوں سمیت کئی ایسی یونیورسٹیاں ہیں جہاں پر مستقل وائس چانسلرز کافی عرصے سے نہیں تعینات کیے جاسکے۔
وائس چانسلرز کیوں تعینات نہیں ہوئے؟
آل پاکستان اکیڈمک ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر امجد مگسی کا کہنا ہے کہ مستقل وی سی نہ ہونے کی وجہ سے صوبے کی یورنیورسٹیوں میں انتظامی اور مالی معاملات بھونڈے اندازہ میں چلائے جارہے ہیں، وائس چانسلر نہ لگانے کی پیچھے ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے سیاست، سیاسی طور پر اثرو رسوخ رکھنے والا جو ہوگا، اس کو وائس چانسلر لگایا جائے گا۔
ڈاکٹر امجد مگسی کے مطابق پنجاب یونیورسٹی میں پچھلے 2 سال سے مستقل وی سی کی سیٹ خالی ہے، مگر حکومت اس پر خاموشی اختیار کیے بیٹھی ہے، سپریم کورٹ نے اس پر ایکشن لیا ہے اور ایک سرچ کمیٹی بنائی ہے جو پاکستان کی مختلف جامعات میں وی سی لگانے کے لیے امیدواروں کے انٹرویوز کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر مستقل وائس چانسلر کا تقرر نہ کیا گیا تو یونیورسٹیوں کا انتظامی، مالیاتی اور علمی ڈھانچہ تباہ ہوجائے گا، یونیورسٹیاں علمی آزادی کے ادارے کے ذریعے معاشرے کے دیگر اداروں کی رہنمائی کرتے ہوئے ترقی کے راستے کا تعین کرتی ہیں، اگر یونیورسٹیاں قیادت سے محروم رہیں گی تو ان کا بنیادی کردار ختم ہوجائے گا۔
مستقل وی سی لگانے والی کمیٹی پر اعتراضات کیا ہیں؟
پاکستان میں کل 154سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 66 یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کے لیے اضافی چارج دیا گیا ہے یا عہدے خالی ہیں، وفاقی دارالحکومت کی 29 یونیورسٹیوں میں سے 24 پر مستقل وائس چانسلر تعینات ہیں جبکہ 5 خالی ہیں۔
بلوچستان کی 10 یونیورسٹیوں میں سے 5 میں وائس چانسلرز تعینات ہیں اور 5 میں ایکٹنگ وی سی موجود ہیں، کے پی کی 32 سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 10 میں مستقل وائس چانسلرز موجود ہیں جبکہ 16 جامعات میں اضافی چارج دیا گیا ہے اور 6 یونیورسٹیوں میں وی سی کی آسامیاں خالی ہیں۔
جامعات میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لیے 5 رکنی سرچ کمیٹی قائم کی گی ہے، گروپ ون سرچ کمیٹی کے کنویئر اسماعیل قریشی ہیں، کمیٹی میں چیئرمین اخوت ڈاکٹر امجد ثاقب ، سیکریٹری ہائر ایجوکیشن کمیشن محمد اصغر شامل ہیں۔
یونیورسٹیز کے پروفیسرز کا کہنا ہے کہ جو 5 رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے، اس میں ایسے لوگ نہیں ہیں جن کی اپنی تعلیم اتنی زیادہ نہیں، یہ کمیٹی یونیورسٹیوں میں مستقل بنیادوں پر وائس چانسلرز لگانے جارہی ہے، کمیٹی ممبران خود اتنے اہل نہیں ہیں اور انہیں حکومت نے وائس چانسلر لگانے کے لیے اختیارات دیے ہیں۔
پروفیسرز کا مطالبہ ہے کہ سرچ کمیٹی کے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو شامل کیا جائے اور جو میرٹ پر آنے والے امیدوار ہیں انہیں وائس چانسلر لگایا جائے، حکومت اس بات کا نوٹس لے تاکہ یہ معاملہ حل ہوسکے۔