امریکا، ہمارے لیے نام ہی کافی ہے!

جمعہ 7 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مجھے نہیں معلوم کہ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کو دورانِ ٹریننگ یہ بتایا گیا تھا کہ امریکا ہمارا اسٹریٹجک شراکت دار ہے اس لیے خیال رکھا جائے، یا پھر ہم امریکا کا نام سن کر ہی گھبرا گئے، سہم گئے، ڈر گئے!

امریکا کے خلاف میچ میں قومی ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر ایسا لگا کہ اگر کسی کھلاڑی نے اچھا پرفارم کردیا تو امریکا یا تو ہم سے ناراض ہوجائے گا یا آئی ایم ایف ہمیں اگلی قسط دینے سے انکار کردے گا۔

اس پورے میچ کو دیکھ کر ایسا لگا کہ امریکا ماضی میں ٹی20 کرکٹ کی نمبر ون ٹیم اور عالمی چیمپیئن رہ چکی ہے جبکہ پاکستان پہلی مرتبہ کسی بھی میگا ایونٹ میں شرکت کررہا ہے۔ اس میچ کو دیکھ کر یہ بھی لگا کہ بابر اعظم اب بھی کپتانی سیکھ رہے ہیں اور اس میچ کو دیکھ کر ایک بار پھر یہ خیال آیا کہ ہمارے بلے بازوں اور بولرز نے کسی اور وکٹ پر بیٹنگ اور بولنگ کی ہے اور امریکا کی ٹیم کسی اور وکٹ پر کھیلی ہے۔

امریکا کے بولرز سوئنگ بھی کررہے تھے اور ان کے اسپنرز کو اسپن بھی مل رہا تھا، مگر ہمارے بولرز؟ دنیائے کرکٹ کے 4 ٹاپ بولرز کا حال یہ تھا کہ وہ امریکا کے صرف 3 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھا سکے اور آخری اوور میں 15 رنز بھی نہ بچا سکے۔ یہاں شاداب خان کا ذکر اس لیے نہیں کررہا کہ ان کے لیے 4 اوورز میں 50 رنز دینا تو اب معمول بن گیا ہے، اور کل تو انہوں نے 3 اوور میں صرف 27 رنز ہی دیے ہیں، وکٹ نہ پہلے مل رہی تھی اور نہ اب ملی۔

جب میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ہمارے لیے بس امریکا نام ہی کافی ہے تو اس نام کا ہم پر اتنا خوف طاری تھا کہ سپر اوور میں بھی ہم نے امریکا کی خوب خدمت کی۔ جب ان سے رنز نہیں بن رہے تھے تب ہم نے ان کو وائڈز کے 7 اضافی رنز دے دیے۔ وکٹ کے پیچھے اعظم خان ہوتے تو ہم دل بڑا کرکے زبردست تنقید کررہے ہوتے مگر اس بار چونکہ رضوان تھے تو ہم دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں کہ اب کیا بولیں؟

چلیے بات مزید آگے لیکر چلتے ہیں، ہم کئی سال سے اس بات پر فخر کررہے ہیں کہ ہمارے پاس ٹی20 کرکٹ کی زبردست اور شاندار جوڑی ہے، اور کچھ میچوں میں صائم ایوب کو موقع دیا گیا تو ایک شور مچ گیا کہ زبردست جوڑی کو توڑ دیا گیا، انہیں واپس لایا جائے، تو لیجیے جناب گریٹ اوپننگ جوڑی واپس آگئی، پھر کیا حاصل کرلیا؟

چلیں، چھوڑیں، کچھ لوگوں کے نزدیک اس جوڑی نے بہت کچھ حاصل کرلیا ہے، لیکن مزیدار بات دیکھیے کہ ہمیں جب 19 رنز کا ہدف ملا تو ہماری گریٹ اوپننگ جوڑی میں سے کوئی بیٹنگ کے لیے نہیں آیا، کیوں؟ ڈر لگ گیا؟ پول کھلنے کا خوف دل میں بیٹھ گیا، رضوان کو آنا چاہیے تھا نا، ذمہ داری لینی چاہیے تھی نا، کیوں نہیں آئے؟

مجھے یہ کہنے دیجیے کہ نہ ہم تیز کھیلتے ہیں اور نہ بے خوف، ہم صرف اس لیے کھیلتے ہیں کہ اگلے میچ میں ایک بار پھر ٹیم میں انتخاب ہوجائے۔

میچ کے بعد کپتان نے کہا کہ ہم نے کم رنز بنائے، لیکن میں سوچتا ہوں کہ جب انہوں نے ابتدائی 21 گیندوں پر 7 رنز بنائے اور جب پاور پلے میں صرف 30 رنز بنے تو اس وقت ان کو یہ اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ ہم ’کچھ‘ سلو کھیل رہے ہیں؟ جب انہوں نے 43 گیندیں کھیل ہی لی تھیں تو کیا اب یہ ان کی ذمہ داری نہیں تھی کہ اننگ کی آخری گیند تک بیٹنگ کرتے اور ٹیم کو 180 رنز تک پہنچاتے؟

اس میچ پر باتیں کرنے کے لیے اتنا کچھ ہے کہ دن اور رات وقف ہوجائیں، مگر مختصراً یہ کہ ہم کرکٹ کے میدان میں تاریخ کے پست ترین مقام تک پہنچ گئے ہیں، یہ کہنا اچھا تو نہیں لگ رہا کہ ہاکی کی طرح کرکٹ کے میدان میں بھی ہماری تنزلی شروع ہوچکی ہے، لیکن ہاں موقع اب بھی ہے کہ ہم بچ جائیں، لیکن نہ پہلے اس حوالے سے سنجیدگی تھی نہ مستقبل میں نظر آرہی ہے۔

آخر میں یہ بھی کہنے دیجیے کہ اس میچ میں سب کچھ بُرا نہیں رہا۔ 2 باتیں اچھی بھی رہی ہیں۔ پہلی یہ کہ بابر اعظم ٹی20 کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی بن گئے، اب اگر ٹیم ہار گئی ہے اور امریکا سے ہار گئی ہے تو کیا ہم اپنے ہیروز کے انفرادی ریکارڈز کا ذکر بھی نہیں کریں گے؟ اور دوسری بات یہ کہ بابر اعظم کہتے ہیں کہ جب آپ ہارتے ہیں تو زیادہ سیکھتے ہیں، اس لیے اچھی بات یہ رہی کہ کل بابر اعظم زیادہ سیکھ گئے۔ سیکھنے کی نہ کوئی عمر ہوتی ہے اور نہ حد، تو بس بابر اعظم سیکھ رہے ہیں، سیکھ رہے ہیں اور ناجانے کب تک سیکھتے ہی رہیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp