آج صبح سویرے اٹھ کر موبائل آن کیا تو ہر طرف پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ہندوستان کے ہاتھوں ہار کے چرچے عام تھے۔ ہر کوئی کھلاڑیوں کی کارکردگی کو نشانہ بنا رہا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم جذباتی قوم ہیں جو کسی بھی ناکامی کو سامنے سے دیکھنے کے عادی ہیں، ہمیں جو دکھائی دیتا ہے اس پر تنقید کرتے ہیں۔
کتنا ہی اچھا ہو کہ ہم کرکٹ کی زبوں حالی کے پیچھے کھلاڑیوں کو برا بھلا کہنے سے پہلے اپنے موجودہ نظام پرسوال اٹھائیں۔ پاکستان نے کرکٹ کے میدان میں جتنا بھی نام کمایا ہے ا س کے پیچھے ڈیپارٹمنٹل لیول (محکمہ جاتی طرز کی کرکٹ) کا عمل دخل رہا ہے۔ مثلاً اسٹیٹ بینک، پی آئی اے، سوئی گیس، نیشنل بینک، زرعی ترقیاتی بینک اور حبیب بینک جیسے محکمے اپنے فنڈز سے اچھے اچھے کھلاڑیوں کو گرُوم کیا کرتے تھے، جس سے نہ صرف باصلاحیت کھلاڑی کی روٹی روزی پوری ہوتی تھی بلکہ سارے محکمے اپنے نامزد کھلاڑیوں کو فرسٹ کلاس میچز کھلواتے تھے اور یہ سب کھلاڑی سیزن کی (پیٹرن ٹرافی، قائد اعظم ٹرافی) میں کھیلتے تھے۔
پھر یہی کھلاڑی فرسٹ کلاس اور انڈر 19کرکٹ کا حصہ بنتے اور وہیں سے اچھے کرکٹر کو کانٹ چھانٹ کر قومی ٹیم میں لایا جاتا تھا۔ یہ ایک پورا سلسلہ تھا جو 1970 سے چلا آرہا تھا۔
یاد رہے کہ بھٹو دور سے پہلے تک سکول، کالجز، یونیورسٹی لیول پر بھی ہاکی، کرکٹ، فٹبال اور دیگر کھیلوں کے کھلاڑی موجود ہوتے تھے، مگر آہستہ آہستہ تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی جگہ سیاسی جماعتوں نے لے لی اور ساری جماعتوں نے طالبعلموں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا، جس کے باعث تعلیمی اداروں سے نکلنے والے کھلاڑیوں کی کھیپ ختم ہوگئی مگر اللہ کا شکر کہ محکمہ جاتی کرکٹ سے پاکستان کو بہترین کھلاڑی میسر ہوتے رہے، ساتھ ہی چند ریٹائرڈ کرکٹرز نے اپنی مدد آپ کے تحت کلب اور اکیڈیمیز کھول لیں جہاں سے تربیت یافتہ کھلاڑیوں کی اچھی خاصی کھیپ پیدا ہوئی۔
مزید پڑھیں
عمران خان جیسے پاپولسٹ لیڈر نے اقتدار میں آتے ہی بھٹو کی طرزِ سیاست پر عمل کرتے ہوئے جذباتی قوم کی تشکیل نو کا آغاز کیا۔ شاید اس کے دماغ میں تھا کہ سیاست کی طرح ڈیپارٹمنٹ لیول کی کرکٹ میں بھی کرپشن ہو رہی ہے، آؤ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ چنانچہ انہوں نے پرانے آزمودہ کھلاڑیوں کے تحفظات کو رد کیا، اپنے ہاتھ میں پکڑی تسبیح کے دانے گھمائے اور 16 محکمہ جاتی کرکٹ کا نماز جنازہ پڑھے بغیر اسے دفنا دیا اور آسٹریلین شیفیلڈ شیلڈ کرکٹ Sheffield Shield کی طرز پر 6 ریجنل ٹیمیں بنانے کا اعلان کردیا۔
اس حکمنامے کے بعد سارے محکموں نے اپنے کھلاڑیوں کی چھٹی کرائی، جس سے نہ صرف باصلاحیت کھلاڑی بے روزگار ہوگئے بلکہ فرسٹ کلاس لیول پر کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑی گھر بیٹھ گئے اوریوں کرکٹ کی نرسری کے پودے مرجھا گئے۔
عمران خان جس طرز کی آسٹریلین شیفیلڈ فرسٹ کلاس کرکٹ سے متاثر ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے آسٹریلیا کو بہترین کرکٹرز مل رہے ہیں۔ آسٹریلیا کی 6 ریاستوں (نیو ساؤتھ ویلز، وکٹوریا، کوئنزلینڈ، مغربی آسٹریلیا، تسمانیہ اور ناردرن ریاست) کی اپنی الگ ٹیمیں ہیں۔ مثلاً ریاست نیو ساوتھ ویلز کی ٹیم کا نام بلیو ہے، تسمانیہ کی ٹیم کانام ٹائیگر، مغربی آسٹریلیا کی ٹیم کا نام وارئیر ہے۔
شیفیلڈ کرکٹ کافرسٹ کلا س سیزن موسم گرما میں نومبر سے شروع ہو کر مارچ میں ختم ہوتا ہے، جہاں پر ساری ریاستوں کے باصلاحیت کھلاڑی ایک دوسرے کے خلاف فرسٹ کلاس میچز کھیلتے ہیں۔ نیو ساؤتھ ویلز کے کھلاڑی اپنے مقامی گراؤنڈز (سڈنی کرکٹ گراؤنڈ، بینکس ٹاؤن کرکٹ گراؤنڈ) پر کھیلتے ہیں اور پھر فائنل میچ کھیلا جاتا ہے، جس کے ساتھ ہی سیزن کا اختتام ہوتا ہے اور سلیکشن کمیٹی بہترین کارکردگی دکھانے والے نوجوان کرکٹر کو انڈر 19 اور وہاں سے قومی ٹیم میں لاتی ہے، جہاں اسے ذہنی طور پر مضبوط کیا جاتا ہے۔
کسی چرچ کے پادری کو بلا کر عیسائیت کی تبلیغ دینے اور آسٹریلین آرمڈ فورسز میں گوریلا ٹریننگ دینے کے بجائے اسے جدید طرز پر کوچنگ کروا کر پروفیشنل کرکٹر بنایا جاتا ہے، تب کہیں جا کر وہ کھلاڑی پریشر والے ماحول میں اپنے اعصاب کو کنٹرول کرکے مخالف ٹیم کے دماغ سے کھیلتا ہے اور ساری آسٹریلین ٹیم مخالف ٹیم کے کھلاڑی کے اعصاب پر سوار ہو کر بڑے بڑے ’بابر اعظموں، ورات کوہلیوں‘ کو دھول چٹوا تی ہے۔
یہ لوگ ٹرافیاں اٹھاتے ہیں اور اس کے اوپر اپنے پاؤں رکھ کر شخصیت پرست ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کو دکھاتے ہیں کہ جس ٹرافی کو آپ مندر مسجد بنائے بیٹھے تھے یہ رہی اس کی اوقات۔
آسٹریلیا میں ہر قسم کا کھیل بہترین منصوبہ بندی سے کھیلا جاتا ہے۔ کھیلوں کے ہر شعبے کا باصلاحیت کھلاڑی سکول کی ٹیم میں کھیل کر شام کے وقت مقامی کلبوں اور پھر وہاں سے اسٹیٹ لیول کی ٹیموں میں آتا ہے، جہاں وہ فرسٹ کلاس میچز کھیلتا ہے اور پھر انڈر 19 ٹیم کا حصہ بنتا ہے، تب کہیں جا کر اسے آسٹریلیا کی قومی ٹیم میں لایا جاتا ہے۔
مثلاً نیو ساؤتھ ویلز کی ٹیم سے سٹیووا، مارک وا، مائیکل کلارک، مائیکل بیون، پیٹ کمنز جیسے باصلاحیت کھلاڑیوں سمیت کئی کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ بنے۔ انہوں نے سکول سے کلب لیول تک، پھر وہاں سے اسٹیٹ لیول کی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی او ر پھر قومی ٹیم میں جگہ بنائی۔
میرے تینوں بیٹے سڈنی کے سرکاری ہائی سکول ’ہوم بُش بوائز ہائی سکول میں پڑھتے ہیں جہاں سے فلپ ہیوز، مچل سٹارک سمیت باسکٹ بال، رگبی اور سوئمنگ کے نامور کھلا ڑیوں نے تعلیم حاصل کی، یہ سکول ٹیم کے کپتان رہے، کلبوں میں کھیلا، اپنے ٹیلنٹ کو پالش کیا اور پھر آگے آئے۔
پاکستان میں کرکٹ ٹیلنٹ کو آگے لانے کا سب سے سستا اور مؤثر طریقہ ڈیپارٹمنٹ سطح کی فرسٹ کلا س کرکٹ تھی کیونکہ وہیں سے کرکٹر ہمیں ملتے آ رہے تھے، جسے ختم کرکے اب جو کھلاڑی ہمیں مل رہے ہیں اسے گلی محلے کی یاری دوستی نبھانے والی تُکے باز ٹیم کہ جسے ہم عرف عام میں چھوراں ویلی (لڑکے بالوں کی ناپختہ ٹیم) کہہ سکتے ہیں۔
پاکستانی ڈیپارٹمینٹل کرکٹ سسٹم کے مخالف اور آسٹریلین طرز پر 6 ریجنوں پر مشتمل ڈومیسٹک کرکٹ کے ویژن کو پاکستان میں لاگو کرنے والے سابق عقلمند وزیراعظم کی خدمت میں عرض ہے کہ آسٹریلین کرکٹ کا ڈھانچہ صرف وہاں کامیاب ہو سکتا ہے جہاں کے کھلاڑیوں کو دال روٹی، معاش کی فکر نہیں ہوتی۔ وہ کچھ بھی نہ کریں صرف کرکٹ کھیلیں تب بھی حکومت اسے دال روٹی، سوشل سیکیورٹی دیتی ہے، مگر یہ غریب ملکوں میں ممکن نہیں۔
ہماری ڈیپارٹمنٹل سطح کی فرسٹ کلاس کرکٹ کو واپس لایا جائے، باصلاحیت کھلاڑیوں کو روزگار دیا جائے اور تُکے بازوں کے بجائے کرکٹ کو تکنیک سے کھیلنے اور سمجھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، تبھی ہمیں مستقبل میں چالاک، پروفیشنل اور مضبوط اعصاب رکھنے والے باصلاحیت کھلاڑی میسر آ سکیں گے۔