اب سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں نت نئی ایجادات نے فاصلوں کو اس قدر سمیٹ دیا ہے کہ ہم صرف ایک کلک پر ہزاروں میل دور اپنے پیاروں کی نہ صرف آواز بلکہ انکے گھروں یا دفاتر میں جو سرگرمیاں ہو رہی ہوتی ہیں انکا بخوبی مشاہدہ بھی کر سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ کے بے شمار فوائد کا اگر بنظرغائرجائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی مانند واضح ہے کہ کورونا وائرس کا بحران بھی اسی وقت آیا جب دنیا جدیدیت کے ثمرات سے مستفید ہو رہی تھی۔دنیا زمینی،فضائی، بحری راستوں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ میں تھی۔
کئی ممالک میں لاک ڈاؤن کے باعث سماجی فاصلے محدود ہو کر رہ گئے تھے۔انٹرنیٹ ہی وہ واحد ذریعہ تھاجس نے کٹھن حالات میں دنیا کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک رکھا۔ لوگوں نے گھروں میں محصور ہو کر گوگل پر سرچ کرکے بہت کچھ سیکھا۔
آن لائن کلاسز وٹیوشن سنٹرز کا ٹرینڈ پروان چڑھا، شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے ویب سائٹس کیلئے لکھا۔ لوگوں نے یوٹیوب ویڈیوز سے ہزاروں روپے کمائے حتی کہ کاروباری کنٹریکٹ بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ہی طے پائے۔
سوشل میڈیا کے بے شمار فوائد کے باوجود سکون غارت ہوتا جا رہا ہے، سوشل میڈیا کے سبب پے درپے فسادات ایسے رونما ہو رہے ہیں جیسا کہ فتنوں کی بارش! سوشل میڈیا دراصل ایسی دنیا ہے جہاں تمام خطوں سے تعلق رکھنے والے افراد آزادانہ طور پر اپنی رائے کا استعمال کر سکتے ہیں۔
دوسری طرف ناتجربہ کار، کم ظرف لوگوں کا سوشل میڈیا کو استعمال کرنا، بندر کے ہاتھ میں ماچس آ جانے کے مترادف ہے جس کی لگائی آگ ہر چیز کو بھسم کر ڈالتی ہے۔لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ شخصی آزادی کے غلط استعمال کا گراف بہت اوپر چلا گیا ہے۔
سب سے زیادہ حملے ذاتیات پر ہو رہے ہیں ، جس کا جو دل کرتا ہے وہ سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیتا ہے۔سوشل میڈیا ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے بلیک میلرز اور ٹھگوں کی چاندی ہو گئی ہے۔سادہ لوح عوام کو نہایت شاطر انداز میں بیوقوف بنانے کا سلسلہ عروج پر ہے۔
بہت سارے لوگوں نے اپنی پروفائل پر ذاتی ڈیٹا شیئر کیا ہوتا ہے جو باآسانی غلط عناصر کی دسترس میں آ جاتا ہے۔ جب بلیک میلر منہ مانگی رقم کا تقاضا کرتا ہے اور متاثرہ شخص اسکی ڈیمانڈ پوری کرنے سے قاصر ہوتا ہے یا اسکے مطالبات کو نظر انداز کر دیتا ھے نتیجتاًبلیک میلر اسکی ذات کواسی کے حلقہِ احباب میں اتنا بھیانک بنا کر پیش کرتا ہے کہ اسکے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں۔
اسی طرح ڈیٹا انفارمیشن شیئر کرنے والے کی شخصیت داغدار ہوجاتی ہے۔لوگ اس کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں باوجود اسکے کہ وہ لاکھ کوشش کرکے بھی اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
وہ محاورہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ ’’بد سے بدنام برا‘‘۔ ایسے متاثرہ شخص کی زندگی پھر اسی مدار کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ بالآخر شدید خوف کے باعث وہ اپنے سوشل سرکل سے کوسوں دور ہوجاتا ہے۔
بغیر کسی تردد کے دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا اب ایسا چبوترہ بن چکا ہے جہاں کوئی کسی کی رائے کا احترام نہیں کرتا بلکہ ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ کا نقارہ بجانا عام سی بات ہوگئی ہے۔
مثال کے طور پر سیاستدانوں، مصلح،سوشل ایکٹویسٹ وغیرہ کے مضحکہ خیز پوسٹرز ترتیب دیکر ان پر جو کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ خدا کی پناہ! نیکی اور بدی دونوں دنیا میں اکٹھی ہی اتاری گئیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نیکی بابا آدم کی طرح قدیم اور ضعیف ہو چکی ہے مگر شیطانیت ہر روز جدت کے ساتھ طاقتور ہوتی جارہی ہے۔
بعض جاہل افراد ایسی عجیب اور نازیبا حرکات کا ارتکاب کرکے فخریہ انداز میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں کہ پرانے واقعات کو ہم بھول جاتے ہیں، کف افسوس ملتے ہیں ’’بہت برا ہوا ایسا نہ تو کبھی سنا اور نہ ہی دیکھا گیا‘‘۔
دراصل عصر حاضر میں ایک دوسرے کیلئے برداشت یوں غائب ہو گئی ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔طوفان بدتمیزی کا سب سے بڑا مظاہرہ آپ انٹرنیٹ اور ٹی۔وی چینلز کی لائیو سٹریمنگ کے دوران کر سکتے ہیں، ایسے ایسے کومنٹس ہوتے ہیں جو براہ راست پارٹی سربراہان، اینکر پرسن، پروگرام میں مدعو گورنمنٹ آفیسرز کی ذاتیات کو جھنجوڑتے ہیں۔
منفی رحجان رکھنے والے غلیظ زبان استعمال کرنے کے بعد اپنا موقف عوام الناس کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ ہم بدتہذیبی کی کس نہج پر کھڑے ہیں؟
سوشل میڈیا میں شخصی آزادی کا لحاظ رکھیں ،یہ مصنوعی دنیا ہے،اس کی وجہ سے حقیقی زندگی کو متاثر نہیں ہونے دینا چاہیئے۔ہمارے معاشرے کی اخلاقی و علمی کمزوری کا یہ حال ہے کہ سماجی اتحاد و یگانگت نہ ہونے کے مترادف ہے۔
ایسے گھٹن زدہ ماحول میں جہاں اشتعال انگیز تقاریر سے کسی کی عزت کو داغ دار کیا جاتا ہو، مسلک،مذہب کو آڑ بنا کر ناشائستہ گفتگو کرنے کو شخصی آزادی کا نام دیا جاتا ہو۔ ان کے روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات ہونے چاہیں۔