سپریم کورٹ نے مونال سمیت نیشنل پارک میں قائم تمام ریسٹورنٹس بند کرنے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ نیشنل پارک میں قائم ریسٹورنٹس 3ماہ میں مکمل ختم کیے جائیں، نیشنل پارک سے باہر کہیں بھی لیز مقصود ہو تو متاثرہ ریسٹورنٹس کو ترجیح دی جائے، نیشنل پارک میں کمرشل سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ دوسری جانب مونال ریسٹورنٹ نے رضاکارانہ طور پر 3ماہ میں ریسٹورنٹ منتقل کرنے کی یقین دہانی کروا دی۔
مزید پڑھیں
سپریم کورٹ میں مونال ریسٹورنٹ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیشنل پارک ایریا میں قائم دیگر تمام ریسٹورنٹس کو بھی 3ماہ میں منتقلی کی ہدایت دی گئی، آپ ہمیں بتائیں کب تک ریسٹورنٹ منتقل کرسکتے ہیں؟ اگر آپ رضاکارانہ طور پر منتقل نہیں کریں گے تو ہم سیل کرنے کا حکم دیدیں گے، مونال ریسٹورنٹس کے وکیل نے کہا کہ ہمیں 4 ماہ کا وقت دے دیں، چیف جسٹس نےکہا کہ 3ماہ کا وقت دے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ہمارا مقصد نیشنل پارک کا تحفظ یقینی بنانا ہے، نیشنل پارک کے علاوہ قائم دیگر تمام ریسٹورنٹس کو جاری کیے گئے غیر ضروری نوٹس ختم کیے جاتے ہیں، ہمارے کیس کا فوکس صرف نیشنل پارک کی حد تک ہے، نیشنل پارک پیر سوہاوہ روڈ پر واقع تمام ریسٹورنٹس 3ماہ میں منتقل کرنے ہدایت کر دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے نیشنل پارک میں قائم ریسٹورنٹس کو دی گئی تمام لیزیں کالعدم قرار دے دیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خیبر پختونخوا کے نیشنل پارک ایریا میں تجارتی سرگرمیاں بند کر دیں، عدالتی کاروائی کا تحریری حکم نامہ بعد میں جاری کریں گے۔
جب کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سی ڈی اے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا سی ڈی اے کے اعلیٰ افسران کو انگریزی کی کلاسز کرانا پڑیں گی۔ سی ڈی اے مونال کے ساتھ دیگر ریسٹورنٹس کی تفصیل مانگی تھی۔
سی ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ ہم نے مارگلہ نیشنل پارک میں تمام تعمیرات کی تفصیلات پر رپورٹ دی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سی ڈی اے کی رپورٹ میں اسپورٹس کلب پاک چائنا سنٹر بھی شامل ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ سی ڈی اے نے آرٹس کونسل، نیشنل مانومنٹ کا نام بھی شامل کردیا ہے، کیا نیشنل مانومنٹ اور اسپورٹس کمپلکس کو گرانے کا حکم دے دیں، یہ سی ڈی اے کی ایمانداری ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کی عمارت بھی نیشنل پارک میں آتی ہے، وکیل سی ڈی اے نے جواب دیا کہ مجھے اس سوال کے جواب کے لیے نقشہ دیکھنا پڑے گا۔ چیف جسٹس بولے کہ دنیا کو معلوم ہے مونال کے ساتھ مزید کتنے ریسٹورنٹس ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نہیں معلوم تو سی ڈی اے کو معلوم نہیں، کیا سی ڈی اے کا اپنا دفتر بھی نیشنل پارک میں ہے، پھر سی ڈی اے کا آفس بھی گرانے کا حکم دے دیں۔