اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 5 سال سے کم عمر کے 60 فیصد بچوں کو گھروں میں نفسیاتی جارحیت یا سزا برداشت کرنا پڑتی ہے، ان میں سے 33 کروڑ بچے ایسے ہیں جنہیں جسمانی سزائیں دی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں ایسے ممالک کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جہاں بچوں کو گھروں پر سزا دینے کی ممانعت ہے، اس وقت ان ممالک کی تعداد 66 ہے جن میں نصف سے زیادہ نے گزشتہ 15 برس میں اس حوالے سے قانون سازی کی ہے، تاہم اس کے باوجود 5 سال سے کم عمر کے تقریباً 50 کروڑ بچوں کو مناسب قانونی تحفظ میسرنہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق بچوں کی نشوونما اور ذہنی صحت میں کھیل کا اہم کردار ہوتا ہے، لیکن بہت سے بچوں کو گھروں پر والدین اور اپنی دیکھ بھال کرنے والوں سے مثبت تحریک اور میل جول میسر نہیں آتا۔
مثبت و مشفقانہ نگہداشت کی ضرورت
یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ جب بچوں کو گھروں پر جسمانی یا زبانی بدسلوکی کا سامنا ہوتا ہے یا جب وہ اپنے عزیزوں کی جانب سے سماجی و جذباتی دیکھ بھال سے محروم رہتے ہیں تو ان میں اپنی قدروقیمت کا احساس کمزور پڑ جاتا ہے اور ان کی ترقی متاثر ہوتی ہے۔
اچھی تربیت و نگہداشت اور والدین کی جانب سے دیکھ بھال کے نتیجے میں بچے خوش رہتے ہیں، انہیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے، وہ سیکھتے اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کھیلوں کے پہلے عالمی دن پر سبھی کو متحد ہوکر بچوں کے خلاف تشدد کا خاتمہ کرنے اور ان کے لیے مثبت، مشفقانہ اور کھیلوں پر مبنی نگہداشت کو فروغ دینے کا عہد کرنا چاہیے۔
بچے عدم تحفظ کا شکار کیوں ہیں؟
جائزے کے مطابق ایک چوتھائی سے کچھ زیادہ ماؤں اور بنیادی دیکھ بھال کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بچوں کی پرورش کرنے اور انہیں تعلیم دینے کے لیے جسمانی سزائیں ضروری ہیں۔
بچوں کی نگہداشت کے طریقوں اور انہیں کھیل کے مواقع تک رسائی کے حوالے سے عدم مساوات بھی عام ہے، مثال کے طور پر، 2 تا 4 سال عمر کے تقریباً 40 فیصد بچوں کو گھروں پر والدین یا اپنی دیکھ بھال کرنے والوں کے ساتھ میل جول کا موقع نہیں ملتا اور وہ ان کی جانب سے آگے بڑھنے کی تحریک سے محروم رہتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں جذباتی طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے اور وہ تنہائی و عدم تحفظ کے احساس کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں ایسے جذباتی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو بالغ عمر کو پہنچنے پر بھی ان کی شخصیت کا حصہ بنے رہتے ہیں۔
والدین کے لیے تربیتی پروگرام ضروری ہیں
دنیا بھر میں 10 فیصد بچے اپنے والدین اور دیکھ بھال کرنے والوں کے ساتھ ایسی سرگرمیوں سے محروم رہتے ہیں جو ان کی ادراکی، سماجی و جذباتی ترقی جیسا کہ پڑھنے، کہانی بیان کرنے، گانے اور مصوری کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں، 5 سال سے کم عمر کے ہر 8 میں سے ایک بچے کے پاس گھروں میں کھیلنے کے لیے کھلونے اور دیگر چیزیں نہیں ہوتیں۔
جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ والدین کے لیے تربیتی پروگراموں کی بدولت ان کی اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے کی صلاحیت میں بہتری آتی ہے، گھریلو تشدد اور بدسلوکی کے واقعات کم ہو جاتے ہیں اور بچوں اور والدین دونوں کی ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے، ان میں رہنمائی یا مثبت طریقہ کار سے روشناسی، والدین اور بچوں کے مابین تعلقات کو مضبوط بنانے کی تربیت اور کھیل، تشدد کے بغیر بچوں کو نظم و ضبط کا پابند بنانے اور باہمی رابطوں کے پروگرام شامل ہیں۔
یونیسف نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ ہر بچے کی محفوظ اور پیار کے احساس کے ساتھ بڑھوتری یقینی بنانے کے لیے تمام حکومتیں اپنی متعلقہ کوششوں کو بہتر بنائیں۔
قانون اور پالیسی میں اس طرح بہتری لائی جائے جس سے گھروں میں بچوں کے ساتھ ہر طرح کے پرتشدد سلوک پر قابو پانے اور اس کا مکمل خاتمہ کرنے میں مدد ملے اور انہیں تحفظ کا احساس ہو۔
بچوں کی نگہداشت میں تعاون کے لیے والدین کی تربیت کے ایسے پروگراموں کو وسعت دی جائے جن سے ان میں مثبت طرزعمل اور زندہ دلی کو فروغ ملے اور گھریلو تشدد کی روک تھام ممکن ہو۔
اسکولوں اور کھیل کے میدانوں میں بچوں کے لیے سیکھنے اور کھیلنے کے مواقع کو وسعت دینے کے اقدامات کیے جائیں، اور انہیں کھیل ہی کھیل میں تربیت دیں۔