عید کا دوسرا نام ہی خوشی ہے۔ فراغت ہوتی ہے، گھر میں اچھا اچھا پکتا ہے، آپ من مرضی سے کھاتے پیتے ہیں۔ بہن بھائیوں، رشتہ داروں، عزیز و اقارب اور پرانے دوستوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ اگر آبائی گھروں سے دُور کہیں کسی شہر میں جا بسے ہیں تو عید پر آپ پھر اپنی جڑوں کی طرف لوٹتے ہیں۔
پرانی یادیں تازہ ہوتی ہیں اور انسان کو بھی ترو تازہ کردیتی ہیں۔ مطلب عید پر عید ہوجاتی ہے۔
کچھ دکھ اور یادیں بھی چُپکے سے ان مواقع پر آٹپکتی ہیں۔ آپ آبائی گھروں میں شب و روز گزارتے ہیں اور قبرستان میں ازلی نیند سوئے اپنے پیاروں سے ملنے جاتے ہیں۔ یاس و الم میں اُلجھتے ہیں تو ماضی کی یادیں گھیر لیتی ہیں۔
نصیر احمد ناصر کی نظم ’آبائی گھروں کے دُکھ‘ پڑھیں تو اسی خاص کیفیت کا اظہار ملتا ہے، جسے میں بیان کرنا چاہ رہا ہوں۔
عمریں گزر جاتی ہیں
شہروں اور ملکوں میں
لکڑی کے صندوق اور پیٹیاں ہماری
جان نہیں چھوڑتیں
گھروں میں کوئی جگہ نہ ہو
تو دلوں اور ذہنوں کے کباڑ خانوں میں
رکھی رہتی ہیں
کبھی نہ کُھلنے کے لیے
اور پھر ایک دن آنے سے پہلے
ہمارے دن پورے ہوجاتے ہیں!!
میں بھی ہر عید اپنے آبائی علاقے میں گزارتا ہوں۔ پچھلے برس بھی یہی ہوا تھا اور اس بار بھی خاص اسی کیفیت نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ اپنے ڈیرے پر گھنے درخت کی چھاؤں میں پانی کے بہتے کھالے کے اوپر منجھے پر بیٹھا ہوں۔
ٹیوب ویل کا صاف شفاف اور ٹھنڈے پانی کی بلا تعطل آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ پانی کے حوض میں رمضان بھینس نہلا رہا ہے۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں بھی حوض میں جاکر بھینس کو نہلاؤں۔ ایسا ہی کرتا ہوں۔ پھر اس حوض میں جاتا ہوں اور پھر سارے وجود کو ٹیوب ویل کے سر مست اور بے قابو پانی کے حوالے کردیتا ہوں۔ لگتا ہے کسی بچھڑے پیار سے مدتوں بعد وصال ہورہا ہے۔ باہم ایک ہوتے ہی سب کچھ بھول جاتا ہوں کہ ملکِ عزیز کس نازک دور سے گزر رہا ہے۔ تنخواہ میں گزارہ کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے اور صحافتی آزادیوں پر قدغن بڑھ رہی ہے۔
لوگوں کی آواز کو دبانے کا چارہ ہورہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی دنیا کے لیے ایک خطرہ بنتی جارہی ہے۔
ملکی کرنسی کی حالت بہت پتلی ہے۔ کس نے مجھے دھوکا دیا اور کون گھات میں بیٹھا ہے اور پتا نہیں کیا کیا، سب بھول بھال کر لمحہِ موجود سے لطف اندوز ہونے لگا۔
جب خوب جی بھر کر کھلے پانی میں نہایا تو لگا سب رنج و غم رفو چکر ہوگئے ہیں، ہر طرف خوشی ہی خوشی اور سکون ہی سکون کا وفور ہے۔
زیرِ کاشت رقبے کی دیکھ بھال اور کام کاج کے لوازمات کے طور پر جہاں ڈھور ڈنگر، مال مویشی رکھے ہوتے ہیں۔ بھوسے، توڑی، چارہ کاٹنے کی مشین (ٹوکہ) یا ٹریکٹر کھڑا کرنے یا ٹیوب ویل کے انجن کے لیے عمارت سی بنی ہو اس سارے احاطے، جگہ یا علاقے کو اپنی بولی میں ’کھوہ‘ یا ڈیرہ کہتے ہیں۔
پنجابی میں کنویں کو ’کھوہ‘ کہتے ہیں۔ پانی زندگی ہے۔ جہاں پانی ہو زندگی کے آثار وہاں خود ہی پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایک زمانے میں جو زمیندار اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے کنواں کھدواتا تھا اسے بہت خوش قسمت اور خوشحال تصور کیا جاتا تھا۔
اگر کوئی کاشتکار اپنی زمینوں کو جاتا ہوگا تو یقیناً کہتا ہوگا ’کھوہ‘ کی طرف جارہا ہوں۔ اسی لیے ڈیرے کا نام کھوہ پڑگیا۔ ضروری نہیں یہ نام ہر جگہ رائج ہو۔ ہر علاقے میں لوگوں یا جگہوں کے نام مقامی لوگ اپنی سہولت کے مطابق رکھ لیتے ہیں۔
ٹیوب ویل کے تازہ پانی پر نہانے کے بعد کپڑے بدل کر ڈیرے کی چھت پر گیا۔ دُور تک گندم کی فصل کٹنے کے بعد کھیت خالی پڑے ہیں۔ گندم کی وہ فصل جس کے بغیر روٹی نہیں بنتی اور روٹی ہر گھر کا مسئلہ ہے۔
گندم کی فصل کو نہ خرید کر حکومتِ وقت نے کسان کو بہت پریشان کیا ہے۔ مگر خیر ہے کُھلے ڈلے کھیتوں کی طرح کسان کا دل بھی بڑا ہوتا ہے۔ وہ بڑے نقصان کو چھوٹا موٹا سمجھ کر نظر انداز کردیتا ہے مگر کہیں دل کے کونے میں حساب کتاب رکھتا ہے جس کا وقت آنے پر وہ حساب چُکانا نہیں بھولتا۔
اس حوالے سے ایک پنجابی محاورہ بھی ہے کہ ’سیانا جٹ وتر دب دیندا اے‘ یعنی سیانا کاشتکار اپنا وار مناسب وقت پر کرنے کو سنبھال لیتا ہے۔ بہرحال کسان کے ساتھ یہ معاملہ پہلی بار نہیں ہوا۔ دکھ مصیبتیں جھیلنے اور نت نئے امتحانوں کا سامنا کرنا اس کی جبلت بن چکا ہے۔
ڈیرے کے ساتھ ہری کچور چاول کی پنیری کی کھیتی پر نظر پڑی تو طبعیت ہشاش بشاش ہوگئی۔ ’رڑے‘ خالی کھیتوں میں کہیں کہیں چاول کی پنیری کی کھیتیاں اور جوار، باجرے، تربوز اور خربوزے کے کھیت کماد کے ہرے بھرے کھیت یا ٹاہلی، کیکر، دریک کے درخت، سن اور سنُکڑے کے پیلے پھول اور ان کی خوشگوار خوشبو سے ایک نئی قسم کی فرحت او تازگی کا احساس ہوا۔
مجھے لگا پورا جہان یہی ہے۔ جہاں سب کچھ میرا اپنا ہے۔ کسی کم مائیگی کا کوئی تصور بھی نہیں۔ خوشحالی کیا ہوتی ہے؟ حال کا اچھا ہونا۔ اس سے زیادہ میرا حال کہاں اچھا ہوگا؟ مجھ سے زیادہ خوشحال کون ہوگا؟
مجھے جب بال بچے کہتے ہیں کچھ زمین بیچ کر شہر میں مکان بنالیں تو میں انہیں کیسے سمجھاؤں کہ دھرتی تو ماں ہوتی ہے۔ میں اپنی زمین کیسے بیچ دوں؟
معاملہ اصل میں اتنا سادہ نہیں۔ میرے بچے میرے ساتھ جب بھی آتے ہیں تو اکثر ڈیرے پر آتے ہیں۔ ٹیوب ویل پر نہاتے ہیں۔ کھیتوں کی منڈیروں پر دوڑتے پھرتے ہیں۔ انہیں اپنی زمینوں پر آنا، بھینسوں اور بکریوں سے بھرا پُرا ڈیرہ اچھا لگتا ہے۔ انہیں یہ کہنا بھی اچھا لگتا ہے کہ ہم زمیندار ہیں۔
مگر زمین کے ساتھ ان کی وہ جُڑت نہیں جو میری ہے۔ میں زمین زادہ ہوں۔ میری پور پور میں یہ مٹی رچی بسی ہے جہاں میں جوان ہوا ہوں، لہٰذا ان کے جذبات میرے جیسے کیسے ہوسکتے ہیں؟
انسانی نفسیات ہے جہاں وہ پلتا بڑھتا ہے وہی اس کا دیس بن جاتا ہے۔ خدا ہجرتوں کے دُکھ سے بچائے مگر یہ سب ہمارے بس میں کہاں ہوتا ہے۔ یہ تو وقت اور حالات ہوتے ہیں جو ہمیں اپنے یا بچوں کو کہیں کا کہیں لے جاتے ہیں۔
اسلام آباد جیسے شہر میں جہاں آئے روز مالک مکان سے کوئی کھٹ پٹ ہوتے رہنا معمول ہو۔ بال بچوں کو اپنے گھر کی ضرورت اور بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اسلام آباد کے اکثر مالک مکان یہ چاہتے ہیں کہ گھر میں رہے بغیر کرایہ دار انہیں بروقت کرایہ ادا کرتے رہیں۔
پھر اپنی چھت تو ہر شہری کا حق اور جائز خواہش بھی ہے۔ بہرحال اچھے کل کی امید کے سہارے ہم زندہ رہنے والے لوگ تو بس زندگی کررہے ہیں۔
مگر بچوں نے بھی ساری عمر بچہ نہیں رہنا ہوتا خواہ ہم انہیں ان کے بڑھاپے تک بچہ ہی سمجھتے رہیں۔
ڈیرے کی چھت پر کھڑے سوچتے سوچتے بے دھیانی میں میری نظر ساتھ نئی آباد ہونے والی ماڈل ہاؤسنگ سوسائٹی کے مکانوں کی طرف گئی۔ پھر سوسائٹی کے پار سڑک پر دوڑتی گاڑیاں دکھائی دیں تو میرے ذہن میں کوندے کی طرح ایک خیال لپکا۔ مجھے خواہ جتنی مرضی اپنی زمین سے محبت کیوں نہ ہو۔ مجھے اپنی زمین کی ایک انچ بھی فروخت کرنے کی ضرورت نہ ہو، مگر جب میرے ڈیرے کو ارد گرد سے کالونیاں گھیر لیں گی، پھر ایک دن میری زمین کی میری سوچ سے بھی زیادہ بولی لگے گی، میں ابتدا میں انکار کروں گا مگر اگلے دن تک Irresistible offer، یعنی میری سوچ سے بھی بڑھ کر بولی لگے تو، مجھے شہر میں بڑا گھر، گاڑیاں، جائیدایں نطر آئیں گی۔ میرے بچے اور میرا دل نت نئے دلائل کے ساتھ مجھ پر حملہ آور ہوگا۔
جب رہنا شہر میں ہے تو زمین کو کیا کرنا ہے؟ یہ تو دوسرے لوگوں کے کام آئے گی۔ مجھے حقیقت پسند ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ مجھے لگا بدلتے وقت کے سامنے کھڑے رہنا میرے لیے محال ہورہا ہے۔
میرا دم گھٹنے لگا، فوراً فضول خیالات کو جھٹکا اور سیڑھیوں سے اُترتے ہی ٹیوب ویل کی نال کو منہ لگا کر ٹھنڈا پانی پینے لگا۔ مجھے تھوڑا سکون ملا او سانس بحال ہونے لگی۔ مگر کب تک؟
ایک ان کہے دکھ سے میرا دل بھر گیا۔