چھ جون کو چین، کرغزستان اور ازبکستان نے ریلوے ٹریک پر معاہدے کر لیا۔ یہ پانچ سو تئیس ( 523 ) کلومیٹر طویل ٹریک ہے۔ اس ٹریک کی تعمیر پر آٹھ ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ یہ ٹریک چین کے شہر کاشغر سے شروع ہو کر کرغزستان کے راستے ازبکستان کے شہر اندیجان تک جائے گا۔ سی کے یو ریلوے ٹریک چین سے یورپ تک نو سو ( 900 ) کلومیٹر فاصلہ کم کرے گا اور آٹھ دن کا وقت بھی بچائے گا۔
یہ ریلوے ٹریک چین کا یورپ سے تو فاصلہ کم کر ہی رہا ہے، یہ سنٹرل ایشیا کو جنوبی ایشیا اور مڈل ایسٹ سے بھی ملا دے گا ۔ اکیس مئی کو امریکا میں کرغز سفیر بکیت امانبائیف نے کیسپین پالیسی سنٹر میں خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ بحیرہ عرب تک پہنچنے کے لیے پاکستان کے ساتھ منسلک ہو گا۔ پورے خطے کے لیے اس کی بے پناہ اقتصادی اور سماجی اہمیت ہو گی۔
یہ ریلوے ٹریک چین کا روس پر انحصار کم کرتا ہے۔ روس ہی اس ٹریک کی تعمیر کا بڑا مخالف تھا۔ یوکرین جنگ میں روس کے مصروف ہونے کے بعد روس کا انحصار چین پر بہت بڑھ گیا۔ چین نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور اس ریلوے ٹریک کی تعمیر کا معاہدہ کر لیا۔
اس معاہدے کے وقت چینی صدر شی کا کہنا تھا ’معاہدے نے مضبوط لیگل بنیاد فراہم کر دی ہے، اب یہ ویژن سے حقیقت میں ڈھل گیا ہے۔ تینوں ملک تعاون اور مشترکہ ترقی کے لیے پرعزم ہیں۔‘ کرغزستان کے صدر، ’صدر جاپاروف‘ کا کہنا تھا ’یہ منصوبہ بالآخر شروع ہو سکتا ہے۔ پانچ سو تئیس کلومیٹر ( 523 ) کا یہ منصوبہ ایشیا کو یورپ اور خلیج فارس سے ملا دے گا۔‘ ازبکستان کے صدر شوکت مرزائیف کا کہنا تھا ’یہ صرف چین سے سنٹرل ایشیا کا مختصر ترین روٹ نہیں ہے۔ یہ جنوبی ایشیا اور مڈل ایسٹ کا بھی مختصر ترین راستہ ہے۔ یہ مستقبل میں تمام متعلقہ ممالک کے فائدے میں ہے۔‘
کرغزستان کو ڈبل لینڈ لاک ملک کہا جاتا ہے۔ ایران نے کرغزستان کو اس ریلوے روٹ کو ایرانی بندرگاہ بندر عباس سے منسلک کرنے کے لیے کافی سفارتی کوششیں کی ہیں۔ کرغز حکام نے ایک وقت میں بندر عباس کا دورہ بھی کیا تھا۔ ایران ریلوے ٹریک اور اپنی بندرگاہوں کے ذریعے عالمی منڈیوں کا گیٹ وے بننا چاہتا ہے۔ اس کوشش کو امریکا یورپ تشویش کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کرغزستان اس منصوبے کو شروع کرنے کے لیے سب سے زیادہ پرجوش ملک ہے۔
افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد تیزی سے ٹرانس افغان ریلوے پراجیکٹس پر کام ہو رہا ہے۔ یہ ریلوے ٹریک حیرتان، مزار شریف کابل سے پھر ننگرہار آئے گا۔ ایک طرف یہ ازبکستان سے منسلک ہو گا، دوسری جانب پشاور تک آ کر پاکستان کی مین لائن سے مل جائے گا۔ کراچی کی بندر گاہوں اور بعد میں گوادر سے منسلک ہو جائے گا۔ افغانستان میں اس کی لمبائی پانچ سو تہتر ( 573 ) کلومیٹر ہے۔
ٹرانس افغان ریلوے پراجیکٹ افغانستان کو کئی ملکوں سے ملا رہا ہے۔ یہ ملک ترکمانستان، ایران اور تاجکستان ہیں۔ ترکمانستان سے آتا ریلوے ٹریک پاکستان اور ایران دونوں سے منسلک ہو گا۔ افغانستان کے مستقبل کے ریلوے منصوبے اہم ہیں۔ان منصوبوں میں افغانستان کے راستے ازبکستان پاکستان کو ملانا۔ سپن بولدک کے راستے قندھار کو بلوچستان سے ملانا۔ وزیرستان کے غلام خان باڈر کو میران شاہ کے راستے پاکستان میں مین لائن تک پہنچانا۔ حیرتان باڈر سے ہرات تک ریلوے ٹریک کا منصوبہ۔ شیر خان بندر کے راستے تاجکستان کو پاکستان اور ایران تک رسائی دینا۔
پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تناؤ کی وجہ سے افغان حکومت اور بزنس مین ایرانی پورٹ چابہار کی جانب متوجہ ہوئے ہیں۔ افغانوں کا اعتراض پاکستان پر یہ ہے کہ اس کی ترجیح سفارتی، سیاسی اور سیکیورٹی پالیسیاں رہتی ہیں۔ یہ ترجیح بزنس اور اکانومی کو متاثر کرتی ہے۔ پاکستان کے راستے تجارت غیر محفوظ ہے۔ یہ کسی بھی وقت سفارتی، سیاسی اور سیکیورٹی پالیسی کے زیر اثر روکی جا سکتی ہے۔
ایران کی سفارتی کوششیں اس پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہتی ہیں۔ انڈیا نے ایرانی پورٹ چابہار میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ چابہار کو امریکا نے انڈیا کی وجہ سے استثنا دے رکھا ہے۔ پاکستان ایرانی بندر گاہ کے اس استثنا کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہوئے گوادر کو چابہار سے منسلک کرنے کا سوچ سکتا ہے۔ ایسا ہوا تو سارے روٹ اور راستے ریجن کی معاشی صورتحال ہی بدل دیں گے۔
حال ہی میں ایک نیوز سائٹ ’دی ڈپلومیٹ نے خبر دی کہ چین نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اہم ترین سے ایک درجہ کم کر کے صرف ’اہم‘ کر دی ہے۔ چین کی وزارت خارجہ نے اس کی تردید کر دی۔
پاکستان چین تعلقات کو ایک اور اینگل سے دیکھیں۔ ہم سی پیک میں مین لائین ون جسے ایم ایل ون کہتے ہیں اس ریلوے ٹریک کو شامل کرانا چاہتے ہیں۔ اس ریلوے ٹریک کے نئے منصوبے میں بھی فاصلہ، کوالٹی اور سہولیات میں کمی بھی کر دی گئی ہے تاکہ یہ کم لاگت میں تعمیر ہو سکے۔ اس کی ایک وجہ فائنانسنگ ہے۔ آئی ایم ایف کی وجہ سے ہم اپنے اکنامک سائز کے اندر رہتے ہوئے ہی نئے قرضے حاصل کر سکتے ہیں ۔ ادھر ایک سوال بنتا ہے کہ پاکستان کنیکٹیوٹی کے ان منصوبوں کی طرف کیوں نہیں جا رہا جو اصل میں گیم چینجر ہوں گے ۔ ہم چین تک آل ویدر ریل اور روڈ لنک بنانے کی طرف نہیں گئے۔ نہ ہم نے کراچی گوادر روڈ کو اپ گریڈ کیا ہے ، نہ گوادر کو کراچی اور پاکستان کے مین ریلوے ٹریک سے لنک کرنے کا منصوبہ سامنے لائے ہیں ۔
یہ وہ منصوبے ہیں جو سی پیک کو گیم چینجر بنائیں گے ۔ یہاں ایک اختلاف دکھائی دیتا ہے۔ وہ یہی ہو سکتا ہے کہ پاکستان چین سے کہتا ہو کہ ان منصوبوں کا فائدہ آپ کو ہونا ہے تو خرچہ بھی آپ ہی کرو ۔ اب ادھر رولا یہ ہے کہ ہم اپنی کسی بھی نئی پرانی حکومت پر اتنا اعتبار ہی نہیں کرتے کہ وہ اتنی سیانی بات کرتے ہوں گے۔ جب ہم نہیں کرتے تو چینی کیوں کرتے ہوں گے۔ ہم نے رلتے رہنے کا آپشن لے رکھا ہے جس کی ہمیں چس بھی آ رہی ہے۔