یونیسکو کے مطابق دنیا کے چند مشہور ترین گلیشیئر 2050 تک کرہ ارض سے غائب ہو جائیں گے۔ اس جائزے میں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل گلیشیئروں کے تیز رفتار پگھلاؤ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ عالمی حدت میں اضافے کو محدود رکھنے کی کوششوں کے باوجود ایسے ایک تہائی گلیشیئر خطرے کی زد میں ہیں۔
یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں پچاس مقامات پر گلیشیئر ہیں جو دنیا بھر میں گلیشیئروں کے مجموعی رقبے کا قریباً 10 فیصد بنتے ہیں۔ ان میں بلند ترین (ماؤنٹ ایورسٹ کے قریب)، طویل ترین (الاسکا میں) اور افریقہ میں باقی ماندہ آخری گلیشیئر بھی شامل ہیں۔
جائزے میں کہا گیا ہے کہ اگر قبل از صنعتی دور کے درجہ حرارت کے مقابلے میں عالمی حدت 1.5 ڈگری سیلسیئس سے تجاوز نہ کرے تو باقی دو تہائی گلیشیئروں کا تحفظ اب بھی ممکن ہے۔ قدرتی ماحول کے تحفظ کے عالمی اتحاد (آئی یو سی این) کے اشتراک سے تیار کردہ یونیسکو کا یہ جائزہ بتاتا ہے کہ عالمی حدت میں اضافے کا سبب بننے والی کاربن کے اخراج کے باعث 2000 سے یہ گلیشیئر تیز رفتار سے پگھل رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
گلیشیئروں پر سالانہ 58 بلین ٹن برف پگھل رہی ہے جو فرانس اور سپین میں ہر سال استعمال ہونے والے مجموعی پانی کے برابر ہے اور دنیا بھر میں سطح سمندر میں ہونے والے اضافے میں اس کا قریباً 5 فیصد حصہ ہے۔ خطرے کی زد پر موجود گلیشیئر افریقہ، ایشیا، یورپ، لاطینی امریکا، شمالی امریکا اور اوشیانا خطے میں واقع ہیں۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں تیز رفتار کمی سے ہی گلیشیئروں اور ان پر منحصر غیر معمولی حیاتی تنوع کو تحفظ مل سکتا ہے۔ یونیسکو کاربن کے اخراج میں بڑے پیمانے پر کمی کے علاوہ گلیشیئروں کی نگرانی اور ان کے تحفظ کے لیے ایک نیا عالمی فنڈ قائم کرنے کی وکالت بھی کر رہا ہے۔ ایسے فنڈ سے جامع تحقیق میں مدد دینے، تمام فریقین کے درمیان تبادلے کے نیٹ ورکس کے فروغ اور فوری انتباہ نیز آفات سے لاحق خطرات میں کمی لانے کے اقدامات پر عملدرآمد میں مدد ملے گی۔
دنیا بھر کی نصف آبادی گھریلو استعمال، زرعی سرگرمیوں اور توانائی پیدا کرنے کی غرض سے پانی حاصل کرنے کے لیے براہ راست یا بالواسطہ طور پر گلیشیئروں پر انحصار کرتی ہے۔ جب گلیشیئر تیزی سے پگھلتے ہیں تو لاکھوں لوگوں کو پانی کی کمی کا سامنا ہوتا ہے اور انہیں سیلاب جیسی قدرتی آفات سے لاحق خطرہ بڑھ جاتا ہے جبکہ سطح سمندر میں اضافے کے نتیجے میں مزید لاکھوں لوگ بے گھر ہو سکتے ہیں۔