آڈیو لیکس کیس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے چیمبر میں سماعت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستارنے ریمارکس دیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ غیرقانونی ہے، کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت دینے کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔
مزید پڑھیں
بشریٰ بی بی اور نجم الثاقب کی آڈیو لیکس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے عدالت کوبتایا کہ وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری ایک ایس او پی کے مطابق آئی ایس آئی اور آئی بی براہ راست سروس پرووائیڈرز سے ڈیٹا حاصل کرسکتے ہیں جبکہ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ضرورت پڑنے پر ان ایجنسیز سے ڈیٹا لے سکتے ہیں۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایس او پی ایک سیکشن افسر نے جاری کیا ہے جس میں متعلقہ اتھارٹی کا ذکر نہیں، وزارتِ داخلہ کو یہ اختیار کیسے حاصل ہے، کس قانون کے تحت یہ ایس او پی جاری کیا گیا، وارنٹ کے بغیر لائیو لوکیشن کیسے شیئر کی جا سکتی ہے، حکومت نے کس قانون کے تحت فیصلہ کیا کہ یہ ڈیٹا حاصل کیا جاسکتا ہے۔
پی ٹی اے نے عدالت کو بتایا کہ اتھارٹی کی جانب سے کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دی گئی، پی ٹی اے سرویلینس نہیں کررہی بلکہ ریگولیٹر ہے، اسلام آباد پولیس کے وکیل نے بتایا کہ نہ ہم سرویلینس کرتے ہیں نہ ہی کال ریکارڈ کرتے ہیں بلکہ وقوعہ ہونے کے بعد میٹریل حاصل کرتے ہیں، میٹریل کے حصول کے لیے وارنٹ لینا ضروری نہیں۔
جسٹس بابر ستار بولے؛ کیا 11 سال میں وارنٹ لینے کی آپ کو ضرورت پیش نہیں آئی، کس نے آئی جی کو کہا ہے کہ وارنٹ نہ لیں، کیا پارلیمنٹ بے وقوف تھی جس نے یہ قانون بنایا تھا، جس پر آپ نے 11 سال میں ایک دفعہ بھی عمل نہیں کیا، ایک قانون ہے 11 سال میں ایک دفعہ بھی کسی نے ڈیٹا کے حصول سے قبل وارنٹ حاصل نہیں کیے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس موقع پر جج سے چیمبر میں سماعت رکھنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اس حوالے سے مکمل آگاہی دیں گے، جس پر جسٹس بابر ستار بولے؛ کیا میں آپ سے دہشت گردوں سے متعلق دریافت کررہا ہوں، صرف قانون کا پوچھا ہے، یہ نیشنل سیکیورٹی کا معاملہ نہیں، آپ کی چیمبر سماعت کی درخواست مسترد کرتا ہوں۔
بعد ازاں عدالت نے آڈیو لیکس کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ اس سماعت کے تحریری حکم نامے میں آئندہ سماعت کی تاریخ جاری کردی جائے گی۔