وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
مزید پڑھیں
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ 2018 کے الیکشن کے بعد کھلے دل سے میثاق معیشت کی پیشکش کی، اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں گزارش کی تھی کہ ہم نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر اتفاق کیا تھا، اب چارٹر آف اکانومی کرتے ہیں لیکن اس پیشکش کو حقارت سے ٹھکرا دیا گیا اور نعرے لگائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اگلے سال دوبارہ اپنی پیشکش دہرائی جس پر پھر ایسے نعرے بلند ہوئے جو ایوان کی توہین ہے، ان تلخیوں کا ذمہ دار کون ہے، آج 76 سال بعد ہم ایسی جگہ پر پہنچے ہیں کہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی جھجھکتے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ اسی ملک میں وہ زمانہ بھی تھا جب اسمبلی میں تنقید ہوتی تھی لیکن سیاستدان ایک دوسرے کے دکھ اور سکھ میں شریک ہوتے تھے، اگر ان کے لیڈر کو جیل میں مشکلات ہیں تو آئیں بیٹھ کر بات کریں اور معاملات کو طے کریں۔
’نہیں چاہتے ان کے ساتھ بھی وہ زیادتیاں ہوں جو ہمارے ساتھ ہوئیں‘
انہوں نے کہا کہ علی محمد خان نے جذباتی تقریر میں جن باتوں کا ذکر کیا، کاش وہ یہ ذکر بھی کرتے کہ جس دن میری والدہ کا انتقال ہوا میں جیل میں تھا، اپنی ذاتی تکالیف کا رونا نہیں رونا چاہتا، مجھے خطرناک قیدیوں کی گاڑی اس لیے دی گئی تاکہ میں کمر کو مزید تکلیف پہنچے۔
انہوں نے کہا کہ میں بھی کینسر سروائیور ہوں، اس کے باوجود عدالت گیا، سوچا کہ جج صاحب کہیں گے کہ آپ کی والدہ کا انتقال ہوا ہے آپ کیوں آئے ہیں، آپ واپس چلیں جائیں، میرے وکلا نے درخواست کی تو جج نے کہا کہ آج بیان لازمی ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ علی محمد خان جانتے ہیں کہ اگر ایک فیصلہ آتا ہے تو انڈر ٹرائل قیدی اور سزا یافتہ قیدیوں کے حقوق میں فرق ہوتا ہے، یہ (پی ٹی آئی رہنما) اور ہم سب انڈر ٹرائل تھے، ہمیں زمینوں پر لٹایا گیا، کھانا گھر سے نہیں لانے دیا گیا، دوائیاں بند کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ ایوان کو گواہ بنا کر اعلان کرتا ہوں کہ ہم نہیں چاہتے کہ ان کے ساتھ بھی ایسی زیادتیاں ہوں جو ہمارے ساتھ ہوئی ہیں، میں ان سے یہی کہتا ہوں کہ ملک کو آگے لے جانے اور اس کی بہتری کے لیے آئیں مل کر بیٹھیں اور بات کریں، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔