سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے کیس کی سماعت کی، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندربشیر نے الیکشن کمیشن کی جانب سے دلائل دیے۔ تاہم کافی دیر تک دلائل، ریمارکس اور سوالات جاری رہنے کے بعد سماعت کو یکم جولائی دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی لسٹ طلب کی تھی وہ نہیں ملی، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ سارا ریکارڈ جمع کرا دیا ہے، کیس سے متعلق حتمی پیپر بک جمع کرا دی ہے، الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ 81 آزادامیدواروں کے کاغذات نامزدگی مجھے مہیا کریں، تحریک انصاف کے فارم 66 بھی عدالت کو مہیا کردوں گا۔
سنی اتحاد کے سربراہ نے بطور آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لیا، وکیل الیکشن کمیشن
وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ حامدرضا نے کاغذات نامزدگی میں کہا میرا تعلق سنی اتحاد اور اتحاد تحریک انصاف سے ہے، حامد رضا نے دستاویزات میں لکھا کہ تحریک انصاف نظریاتی کے ساتھ منسلک ہوں، تحریک انصاف نظریاتی مختلف سیاسی جماعت ہے جس کا پی ٹی آئی سے تعلق نہیں۔
وکیل سکندربشیر نے اپنے دلائل میں کہا کہ حامدرضا کو ان ہی کی درخواست پر ٹاور کا نشان انتخابات لڑنے کے لیے دیا گیا، حامدرضا نے بطور آزادامیدوار انتخابات میں حصہ لیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ اردو والے دستاویزات میں تو حامدرضا نے نہیں لکھا کہ میں آزادامیدوار کے طور پر انتخابات میں اترنا چاہ رہا ہوں، جس پر سکندر بشیر بولے کہ ایسا کیسے ہوسکتا کہ حامدرضا خود کو آزادامیدوار نہ کہیں، تحریک انصاف نظریاتی کا ٹکٹ حامدرضا نے جمع نہیں کروایا۔
امدرضا نے حلف لے کر کہا میں تو تحریک انصاف نظریاتی میں ہوں، وکیل الیکشن کمیشن
انہوں نے کہا کہ حامدرضا نے منسلک ہونے کا سرٹیفیکیٹ تحریک انصاف کا دیا ہے، حامدرضا نے حلف لے کر کہا میں تو تحریک انصاف نظریاتی میں ہوں۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق الیکشن کمیشن نے حامدرضا کو ٹاور کا نشان دیا، ریٹرننگ افسران بھی تو الیکشن کمیشن کے ہی آفیشلز ہیں۔
سکندر بشیر نے کہا کہ حامدرضا کی سب سے آخری درخواست پر الیکشن کمیشن نے عملدرآمد کیا۔
جسٹس منیب اختر بولے کہ حامدرضا نے کس سیاسی جماعت سے خود کو منسلک کیا؟ جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ جو ریکارڈ ہے ہمیں دکھائیں، ورنہ تو ہوا میں بات ہوگی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ کیا کاغذات نامزدگی واپس لینے کے بعد کسی امیدوار کو اختیار ہے کہ اپنی پارٹی تبدیل کرلے؟ کیا کوئی امیدوار کہہ سکتاہےکہ فلاں پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی کا ٹکٹ لینا چاہتاہوں؟
نشان چھوڑیں، ہمیں امیدوار کی سیاسی وابستگی کے بارے میں بتائیں، چیف جسٹس
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ ریٹرننگ افسران کے پاس امیدوار کے کاغذات نامزدگی کے ساتھ منسلک پارٹی سرٹیفیکیٹ ہوتا ہے؟ وکیل سکندر بشیر بولے کہ الیکشن کمیشن میں جو آخری درخواست ہو اس کے ساتھ جانا ہوتا ہے، پہلے والا فارم الیکشن کمیشن نے کیوں نہیں دیکھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ایک شخص اگر شادی کرنا چاہے لیکن لڑکی کی بھی رضامندی ضروری ہے نا، جس پارٹی سے انتخابات لڑنے ہیں اسی کی پارٹی سے منسلک ہونے کا سرٹیفیکیٹ لگانا ضروری ہے نا؟ سرٹیفیکیٹ تحریک انصاف نظریاتی اور ڈیکلیریشن پی ٹی آئی کا کریں تو قانون کیا کہتا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ مختلف شہروں کے ریٹرننگ افسران ہوتے ہیں، ہر ریٹرننگ افسر اپنے طریقے سے کام کرے گا نا؟ نشان چھوڑیں، ہمیں امیدوار کی سیاسی وابستگی کے بارے میں بتائیں۔ جس پر وکیل سکندر بشیر بولے کہ امیدوار کی ڈیکلریشن اور پارٹی کے ساتھ وابستگی ظاہر ہونا ضروری ہے۔ اگر ڈیکلریشن، سیاسی وابستگی میچ نہ ہو تو آزادامیدوار ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کسی کو انتخابات سے باہر کرسکتے ہیں؟ وکیل سکندر بشیر بولے کہ ریٹرننگ افسران کے لیے صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے آسان راستہ تھا کہ ایسے امیدواروں کو آزاد ظاہر کیاجائے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کیا ایسا ہوا کہ امیدوار کہے میں ایک پارٹی کا ہوں، اسی کا سرٹیفیکیٹ بھی دے لیکن الیکشن کمیشن نے اسے آزادامیدوار ظاہر کردیا ہو؟ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ ایسے امیدوار تھے لیکن انہوں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لی۔
نشان سے کنفیوژ نہ کریں، جو پوچھیں اس کا جواب دیں، چیف جسٹس
جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کیا دستاویزات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کا غیر سنجیدہ رویہ تھا؟
چیف جسٹس بولے کہ نشان سے کنفیوژ نہ کریں، ہم تحریک انصاف کے امیدوار کیوں نہ تصور کریں، سرٹیفیکیٹ میں تزاد نہیں، الیکشن کمیشن امیدوار کی حیثیت تبدیل کررہا، جس پارٹی کا سرٹیفیکیٹ لایا جارہا اسی پارٹی کا امیدوار کو تصور کیوں نہیں کیا جارہا؟
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آپ نے امیدواروں کو آزاد کیوں کہا جب خود کو وہ ایک سیاسی جماعت سے وابستہ کہہ رہےتھے؟ کنفیوژن شروع ہوگئی کہ پارٹی کا ٹکٹ نہیں ملا تو امیدوار کیا کرسکتا ہے۔
جسٹس یحیٰی آفریدی نے پوچھا کہ کیا ان 81 امیدواروں میں کوئی ایک ہے جس نے جماعت سے وابستگی اور سرٹیفکیٹ بھی دیا؟ کیا ایسے ہیں جنہوں نے وہ کاغذات واپس نہیں لیے مگر پھر بھی اسے آزاد ڈیکلئیر کردیا ہو؟
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ 81 لوگ ہیں تو ان کا مختلف مختلف حساب ہے، چیف جسٹس نے برہم ہوتے ہوتے پوچھا کہ آپ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں یا نہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ آپ کا جواب جو چارٹ آپ نے جمع کرایا اس میں موجود ہے۔ نعیم اختر افغان نے کہا کہ چارٹ کے مطابق 81 میں سے 35 نے وابستگی کو خالی رکھا۔
’کیا یہ ریکارڈ نہیں دکھاتا کہ پی ٹی آئی امیدواروں کا رویہ غیر سنجیدہ ہے‘
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ سیریل 12 اور 20 والے امیدواروں نے وابستگی اور ڈیکلیریشن دونوں پی ٹی آئی کے ہیں، چیف جسٹس بولے کہ جب یہ دونوں چیزیں موجود تھیں تو امیدوار کو پی ٹی آئی کا کیوں نہ سمجھا گیا؟ الیکشن کمیشن نے اس کے بعد انتخابی نشان سے کنفیوز کیوں کیا؟ جن امیدواروں نے پارٹی کا سرٹیفکیٹ بھی دیا انہیں اس جماعت کا تصور کیوں نہ کیا گیا؟ آپ اس معاملے میں انتخابی نشان کہاں سے لے آئے؟
الیکشن کمیش کا جواب مجھے کلک نہیں کررہا، چیف جسٹس
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سکندر صاحب آپ سیریل 22 والے امیدوار کو بھی دیکھیں، جس امیدوار نے وابستگی برقرار رکھی اسے آزاد کیسے ڈیکلیئر کیا؟ چیف جسٹس بولے کہ الیکشن کمیش کا جواب مجھے کلک نہیں کررہا۔
جسٹس عائشہ ملک نے بھی استفسار کیا کہ پوچھا تو الیکشن کمیشن سے جائے گا نا کہ انہوں نے کیا کیا؟ آزادامیدوار تو الیکشن کمیشن نے بنایا تھا۔ جسٹس منیب اختر بولے کہ ایک امیدوار کی بات نہیں، تحریک انصاف کی بات ہورہی جو قومی جماعت ہے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو کہا کہ آپ کو نشان نہیں ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا لیکن ایسا نہیں کہا کہ تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کردیں، سپریم کورٹ کو تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا مقصد ہر گز نہیں تھا، بلے کے نشان کے فیصلے کے ساتھ سپریم کورٹ کھڑی ہوتی لیکن تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا مقصد نہیں تھا۔
وہ مزید بولے کہ 22 دسمبر 2023 کو صدر مملکت کون تھا؟ وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ دسمبر 2023 میں صدر مملکت عارف علوی تھے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا نگراں حکومت تھی یا سیاسی جماعت کی حکومت تھی؟ کیا کسی نگراں حکومت کو نیوٹرل ہونا چاہیے؟ اتنی نیوٹرل جتنا الیکشن کمیشن ہے؟
’کیا نگراں حکومت اتنی ہی انڈیپینڈنٹ ہونی چاہیے جتنا الیکشن کمیشن ہے‘؟
چیف جسٹس قاضی فائز بولے کہ اگر عارف علوی کا ماضی کا ریکارڈ دیکھتے تو انتخابات عارف علوی نہ کرتے، دنیا بھر کی باتیں کررہے، صدر مملکت عارف علوی پی ٹی آئی کے ہو کر کیوں انتخابات کی تاریخ نہیں دے رہے تھے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات میں عوام کی منشا دیکھی جاتی ہے، اگر کوئی انتخابات پر سوال اٹھے تو الیکشن کمیشن کے پاس معاملہ جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے ملک میں انتخابات کروائے، مفروضوں والی باتیں کیس میں نہ کریں۔ وکیل سکندر بشیر بولے کہ الیکشن کمیشن نے پشاور کے 5رکنی بینچ کو مطمئن کیا، میرے دلائل کو ججز نے باہر نہیں پھینکا۔
جسٹس منیب اختر بولے کہ ایسا نہ کہیں کہ 5رکنی بینچ نے فیصلہ دے دیا تو بس ہوگیا۔
جسٹس امین الدین بولے کہ ہم ایک اپیل سن رہے ہیں ہمارے سامنے انتخابی نشان کی الاٹمنٹ کا معاملہ نہیں ہے، اس کے باوجود ہمارے سامنے 90 فیصد دلائل انتخابی نشان پر ہو رہے ہیں۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں یہی کہہ رہا ہوں کہ پشاور ہائیکورٹ کے 5 جج ہمارے فیصلے کو برقرار رکھ چکے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم پشاور ہائیکورٹ کے 5 ججوں کے فیصلے کے پابند نہیں، ہم نے جو اصل مسئلہ ہے اسے دیکھنا ہے، سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن سیاسی جماعت کو ڈس فرنچائز کیسے کر سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن نے کب کہاں بیٹھ کر فیصلہ کیا انتخابی نشان نہیں ہو گا تو پی ٹی آئی جماعت نہیں ہو گی؟ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے اور اس میٹنگ کا ریکارڈ دکھائیں۔ جس پر وکیل بولے کہ میں ریکارڈ دیکھ کر بتاوں گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ یہ بھی بتائیں الیکشن کمیشن کا اختیار کیا ہے کسی کو آزاد ڈیکلئیر کرنے کا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وابستگی کا معاہدہ امیدوار اور جماعت کے درمیان ہوتا ہے، آپ کوئی ایک قانون کی شق دکھا دیں الیکشن کمیشن نے انہیں کیسے آزاد ڈیکلئیر کر دیا؟ جسٹس منصور بھی بولے کہ اس کا جواب یہی ہے نا کہ آپ نے بس انتخابی نشان نہ ہونے پر اس جماعت کو الیکشن سے باہر رکھا؟ بس ہمیں یہ بتا دیں الیکشن کمیشن نے کب کہاں بیٹھ کر یہ سوچا۔
فیصلہ دینے والا بینچ خود کہہ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے غلط تشریح کی، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کرکے میجر پارٹی کو الیکشن سے نکال دیا۔اب انتخابی نشان کا فیصلہ دینے والا بینچ آپ کو خود بتا رہا ہے آپ کی تشریح غلط تھی۔ وکیل الیکشن کمیشن بولے کہ یہ صرف آبزرویشنز ہیں ابھی اس سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ انتخابی نشان والے فیصلے کیخلاف نظر ثانی زیر التوا ہے۔
آزادامیدوار خود کو امیدوار نے نہیں، الیکشن کمیشن نے ڈیکلیئر کیا، جسٹس منیب اختر
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ چند امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لیے اور آزادامیدوار خود کو ظاہرکیا، آزادامیدوار سنی اتحاد میں شامل ہوئے، کیس میرا نہیں، سنی اتحاد کا ہے، دیکھنا ہوگا کہ اپیل میں سنی اتحاد نے کیا دلائل و حقائق سامنے رکھے، آزادامیدوار ہونے کے لیے پارٹی جوائن کرنا ضروری ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزادامیدوار خود کو امیدوار نے ظاہرنہیں کیا، الیکشن کمیشن نے آزاد ڈیکلیئر کیا۔ الیکشن کمیشن نے امیدوار کو آزاد بنایا، الیکشن لڑا، پھر جماعت کے ساتھ منسلک ہونا چاہ رہے تو الیکشن کمیشن کہہ رہا کیسے شامل ہوسکتے؟
’الیکشن کمیشن نے امیدوار کو آزادامیدوار کہا اور اب جب امیدوار اپنی پارٹی میں شامل ہونا چاہ رہا تو الیکشن کمیشن مذاق اڑا رہا ہے‘۔
چیف جسٹس بولے کہ مجھے سننا پسند ہے، میرا اپنا دماغ بھی ہے لیکن وکیل کو سننا چاہتا ہوں، وکیل سکندر بشیر بولے کہ تحریک انصاف نظریاتی کا ٹکٹ تو کسی کو ملا ہی نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کچھ حقائق واضح ہوتے جس کے لیے آپ کا یا میرا بولنا نہیں ضروری، الیکشن کمیشن کے عدالت کو مہیا کیے گئے دستاویزات میں تنازع ہے۔
جسٹس مندوخیل بھی بولے کہ فارم 33 الیکشن کمیشن بناتا ہے، جس میں امیدوار اپنا سرٹیفیکیٹ دیتا ہے۔ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ حامدرضا نے شٹل کاک مانگا لیکن شٹل کاک تو الیکشن کمیشن کے پاس نشان دستیاب تھا ہی نہیں، چیف جسٹس بولے کہ نشان نہ ملنے پر کسی امیدوار کا کیسے کسی پارٹی سے تعلق ٹوٹ سکتا ہے؟
ایک پارٹی کا منشور پڑھا جا رہا ہے، باقیوں کا کیوں نظر انداز کر رہے ہیں؟ جسٹس عائشہ ملک
ڈی جی لاء نے روسٹرم پر سنی اتحاد کا مخصوص نشستوں سے متعلق مینی فیسٹو پڑھ کر سنایا، جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن ہر سیاسی جماعت کا مینی فیسٹو پڑھ کر انہیں مخصوص نشستیں دیتا ہے؟ وکیل سکندر بشیر بولے کہ مجھے ضروری لگا کہ سنی اتحاد کا مینی فیسٹو عدالت کے سامنے لایا جائے، جسٹس عائشہ بولیں کہ کیا میں تمام پارٹیوں کا دیکھوں یا ایک پارٹی کا مینی فیسٹو دیکھوں؟ دیگر پارٹیوں کے مینی فیسٹو کو نظر انداز کیوں کروں؟
وکیل سکندر بشیر بولے کہ آپ کسی اور پارٹی کا مینی فیسٹو نہ دیکھیں، آپ میری بات سنیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے سنی اتحاد کونسل کے چئیرمین کو خود آزاد ڈیکلئیر کیا، آپ کے آزاد ڈیکلئیر کرنے پر وہ کامیاب ہو کر واپس اپنی ہی جماعت میں شامل ہوا، اب آپ کہہ رہے ہیں سنی اتحاد کونسل کا چئیرمین خود کیسے اپنی جماعت میں شامل ہوا؟ یہ صورتحال آپ کی اپنی پیدا کردہ ہے۔
یہی شق جے یو آئی کے منشور میں بھی ہے اس کے باوجود مخصوص نشستیں دی گئیں، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ الیکشن کمیشن نے کہا سنی اتحاد کونسل غیر مسلم ممبر کو تسلیم نہیں کرتا، ایسی ہی شق جے یو آئی کے منشور میں بھی ہے، جے یو آئی کو تو اس کے باوجود مخصوص نشستیں دی گئیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن سب جماعتوں کو مخصوص نشستیں دینے کے لیے منشور دیکھتا ہے؟ اگر باقی جماعتوں کا منشور نہیں دیکھا جاتا تو سنی اتحاد کونسل کا کیوں دیکھا جا رہا ہے؟
مدھم آوازوں پر بھی توجہ دیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس جمال مندوخیل کے سوال پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مدھم آوازوں کو بھی توجہ دیں، وکیل الیکشن کمیشن بولے کہ میں ہر کسی کو سوال کا جواب دینے کی کوشش کررہا ہوں۔
وکیل سکندربشیر کی جانب سے مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن ایکٹ کے مختلف سیکشنز پڑھے گئے، اگر مخصوص نشست لینی ہے تو جنرل سیٹ جینتی پڑے گی جو سنی اتحاد جیتنے میں ناکام رہی۔ آزادامیدواروں کا سنی اتحاد سے کوئی تعلق نہیں۔ سنی اتحاد کونسل کی درخواست الیکشن ایکٹ کی سیکشن 104 نظر انداز کرکے ہی مانی جا سکتی ہے، سنی اتحاد کونسل کی بات ماننا آئین کے آرٹیکل 51 کو بھی نیا معانی دینے جیسا ہو گا۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے پوچھا کہ باقی جماعتوں کو جیتی گئی نشستوں کےحساب سے حصہ مل چکا، کیا باقی بچی ہوئی نشستیں ان جماعتوں میں دوبارہ تقسیم ہو سکتی ہیں؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں اس سوال کا جواب دوں گا تھوڑی سی اسپیس دیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا تحریک انصاف اور سنی اتحاد نےکوئی لسٹ دی؟ وکیل بولے کہ تحریک انصاف نے مخصوص نشستوں کی لسٹ دی، سنی اتحاد نے نہیں دی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی بولے کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دیں؟ وکیل بولے کہ تحریک انصاف کو کوئی مخصوص نشست نہیں دی گئی۔
سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو انتخابات سے الگ کردیا تھا، سپریم کورٹ اگر کہے کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے کی غلط تشریح کی تو کیا اثرات پڑیں گے؟ الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ کسی پارٹی کو انتخابات سے باہر کرے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ کتنا وقت لگےگا؟ ایک دو منٹ؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن بولے کہ مجھے کافی وقت دلائل دینے میں لگیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تو کوشش کررہے کہ جلد ختم کریں، پیر کا دن رکھ لیں؟ ساڑھے گیارہ بجے؟ تحریک انصاف کی لسٹ آج مہیا کردیں، وکیل نے کہا کہ میں تحریک انصاف کی لسٹ دے دوں گا۔
سپریم کورٹ نے دیگر وکلاء کو تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ مہیا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ دیگر امیدواروں کے سرٹیفکیٹ اور ڈیکلریشن بھی مہیا کی جائیں۔