وی ایکسکلوسیو: عمران خان کی جیل سے رہائی بھی ہوگی اور ایک سال میں نئے انتخابات بھی ہوں گے، محمد علی درانی

جمعہ 28 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق وفاقی وزیراطلاعات محمد علی درانی نے دعوی کیا ہے کہ عمران خان کو جیل سے رہائی بھی ملے گی، ان سے مذاکرات بھی کیے جائیں گے اور ایک سال کے اندر نئے انتخابات بھی کروانا پڑیں گے۔ ووٹرز کا مقابلہ بندوق کے ذریعے نہیں ہوسکتا، اس وقت عمران خان کے ساتھ 98 فیصد نوجوان ہیں اور نوجوانوں سے پنگا نہیں لیا جاتا۔

وی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی نے کہا کہ ’میں آج پیشگوئی کر رہا ہوں کہ حکومت عمران خان کو جیل سے رہا بھی کرے گی اور ان کو مذاکرات کے لیے بھی بلائے گی۔ عمران خان ان سے مذاکرات کریں اور اگلے الیکشن کے لیے سازگار ماحول بنائیں اور الیکشن کے لیے قانون سازی کریں۔‘

محمد علی درانی نے کہا کہ عمران خان مذاکرات کریں اور فارم 45 فارم 47 کا مسئلہ حل کریں جو حل بھی ہو جائے گا۔

اس سوال پر کہ فارم 45 و 47 کا مسئلہ حل ہوگیا تو وزیراعظم کی چھٹی نہیں ہوجائے گی؟ محمد علی درانی نے کہا کہ چھٹی ہو بھی گئی تو کیا ہوگا، حکومت ہے کوئی موت تو نہیں، شہباز شریف وزیراعظم کی کرسی نہیں چھوڑیں گے تو کرسی اٹھا کر کوئی باہر رکھ دے گا تو پھر اچھا لگے گا؟

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ’کرسی عوام کی دی ہوئی ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ ہوا ہو تو پھر وہ قبضے کی ہوتی ہے، شہباز شریف کرسی کو احترام دیتے ہوئے ڈائیلاگ کا آغاز کریں، فارم 45 و 47 کا مسئلہ حل کریں اور اسمبلی کے اندر بیٹھ کر الیکشن کے لیے قانون سازی کریں، ایک مدت کے اندر الیکشن کروائیں، اس وقت ایک سال کے اندر نئے انتخابات قوم کی ضرورت ہے کیونکہ پچھلے الیکشن قانونی اور آئینی طور پر قابل عمل نہیں ہیں‘۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نئے انتخابات ہو نہیں جائیں گے کروانے پڑیں گے کیوں کہ عوام، دنیا اور پاکستان کا مفاد اسی بات کا متقاضی ہے۔

’ووٹرز کا مقابلہ بندوق کے ذریعے نہیں ہوسکتا‘

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ دشمن کا مقابلہ بندوق سے کیا جاتا ہے، ووٹرز کا مقابلہ بندوق سے نہیں ہوسکتا، عمران خان کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ پوری قوم ان کے ساتھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کی سب سے بڑی طاقت ہے کہ پوری قوم بالخصوص نوجوان ان کے ساتھ ہیں اور 98 فیصد لوگ اس حکومت سے تنگ ہیں، عمران خان ان 98 فیصد کو لے کر پاکستان کے مفادات کے لیے کھڑے ہو جائیں‘۔

محمد علی درانی کہا کہ بندوق کے ذریعے دہشت گردوں سے مقابلہ ہو سکتا ہے ووٹ سے نہیں ہوسکتا، آپ سیاست بندوق سے نہیں کر سکتے اور اگر ووٹر سے مقابلہ کرنا ہے تو مفاہمت اور آئین و قانون کے ذریعے لڑنا پڑے گا۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ جس کے ساتھ عوام نہ ہوں ادارے ان کے ساتھ زیادہ دیر نہیں ٹھہرا کرتے، میں نے پی ڈی ایم کو کہہ دیا تھا کہ عوام آپ کے ساتھ نہیں ہیں اس لیے نہ عدلیہ آپ کے ساتھ رہے گی نہ کوئی اور رہے گا۔

’اسٹیبلشمنٹ کا پی ٹی آئی کے ساتھ تعلق بہتر ہونا چاہیے‘

محمد علی درانی نے کہا کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا جس طرح حکومت کے ساتھ اچھا تعلق ہے اسی طرح عمران خان کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اس صورتحال میں عوام کو اپنی دائیں طرف رکھے، پاکستان کے دفاع کے لیے عوام کی قوت کو اپنے حق میں استعمال کرے، یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں، عوام کی اکثریت اب نوجوانوں کی ہے اور ان سے ’پنگا‘ نہیں لینا چاہیے۔

’عمران خان اور فوج کے درمیان جھگڑا حکومت کی خواہش ہے‘

محمد علی درانی نے کہا کہ حکومت کی خواہش ہے کہ عمران خان اور فوج کے درمیان جھگڑا رہے، آج بھی ان کے وزیر ایسے بیانات دیتے ہیں جیسے وہ 9 مئی کی عدالت ہوں، ایک وزیر نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ان کو تو 5 سال تک جیل میں رکھا جائے، یہ بات ان کو زیب نہیں دیتی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے پہلے بھی درخواست کی تھی اگر ملک کو آگے بڑھانا ہے تو سیاسی لوگوں کی سزائیں معاف کریں، اگر یہ نہیں کرسکتے تو کم از کم جیلوں سے باہر نکالیں، کون سا قانون کہتا ہے کہ جن پر مقدمہ ہے وہ جیل سے باہر نہیں آسکتے؟ کیا وہ کیڑے مکوڑے ہیں جو باہر آئیں گے تو بھاگ جائیں گے؟ وہ بڑے بڑے لیڈر ہیں ان کو لائیں عزت سے بٹھائیں بات چیت کریں، سیاست کریں آپ تو قبائلی دشمنیاں کر رہے ہیں، یہ سیاست نہیں جہالت ہے، یہ غیر جمہوری رویے ہیں، اس سے ملک آگے نہیں بڑھا کرتے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے یہ کہنے سے کہ حکومت کے پاس اختیار نہیں کچھ نہیں ہوتا وہ تو اس حکومت کو چھیڑتے ہیں، آئین میں صدر اور وزیراعظم کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی قیدی کی سزا معاف کرواسکتے ہیں، جب حکومت مل جائے تو پھر اختیار آئین و قانون دے دیتا ہے۔

’9 مئی پر معافی منگوانے سے پہلے جرم تو ثابت کریں‘

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ’9 مئی کے کسی مجرم کو نہیں چھوڑنا چاہیے، مجرم کون ہوگا جس کو عدالت سزا دے گی، مجرم بننے سے پہلے کس سے معافی منگوا رہے ہیں؟ ایک سال ہوگیا کسی کا استغاثہ نہیں پیش کیا، ان خواتین کا بھی نہیں کیا جن کو جیل میں رکھا ہوا ہے،  اس قوم اور اداروں کو شرمندہ کیا جارہا ہے، ادارے اپنا اسٹینڈ لے کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی اس کی داد رسی ہونی چاہیے، اقدامات ہونے چاہییں، وہ کون کرے گا وہ تو حکومت کرے گی‘۔

’ٹک ٹاک سے عوام کو خوش نہیں رکھا جاسکتا‘

محمد علی درانی نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کو اس وقت سفید جھنڈے کے ساتھ ملک میں نکل آنا چاہیے، ملک میں مفاہمت، بات چیت کے لیے یکجہتی کے لیے انہیں اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نکل آنا چاہیے اور وہ کہیں کہ قوم متحد ہو جائے، تمام قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ’آج ہمیں بہت بڑے چینلجز کا سامنا ہے، اس وقت سیکیورٹی، معشیت کا چیلنج ہے، عوام کی جو اس وقت چیخیں نکل رہی ہیں، عوام کو ٹک ٹاک کے ذریعے خوش نہیں رکھ سکتے، ان کے پیٹ خالی ہیں، کسی کو اس کی پرواہ ہی نہیں، اس سب کے لیے نوازشریف کو آگے آنا ہوگا، اقتدار کو بھول جائیں تو اقتدار ان کے قدموں میں آئے گا، اقتدار کے پیچھے بھاگیں گے تو رسوائی ان کے ہاتھ آئے گی‘۔

محمد علی درانی کا کہنا تھا کہ ملک کے سب بزرگوں کو بڑا سوچنا ہوگا کیوں کہ سب سے بڑی سوچ، سب سے بڑا کام اور سب سے بڑی جیت معاف کردینا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp