سیاست، سینما، سماج

اتوار 30 جون 2024
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ عامر رضا کی نئی کتاب کا نام ہےجس میں انھوں نے سیاست، سینما اور سماج کے باہمی ربط و ضبط کا نہایت مہارت سے احاطہ کیا ہے۔ جو لوگ عامر کو جانتے ہیں انھیں یقین کرنا واقعی مشکل لگتا ہوگا کہ ایک سادہ طبعیت آدمی نے کیسے ایسی عالمانہ کتاب لکھ ڈالی ہے۔ عامر کی شخصیت سے واقف دوست آگاہ ہیں کہ عامر واقعی ایک عالم ہے۔ اس نے اپنے رویے، بدن بولی یا انداز و اطوار سے کبھی یہ ظاہر کرنے کوشش نہیں کی کہ وہ عہد حاضر کا سقراط یا بقراط ہے۔ اندر سے بھرے ہوئے لوگوں کو اپنے علم و فضل کے ڈھول پیٹنے کی احتیاج نہیں رہتی۔

عامر اکثر اپنا فکر ی اظہار تقریر کی بجائے تحریر سے کرتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے اُس کی کتاب “مارکس سے خائف لوگ ” آئی جو شائع شدہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ذاتی طور پر کالموں کے مجموعے کو کتاب نہیں گردانتا۔

مگر عامر کے مضامین کا مجموعہ واقعی ایک خاصے کی چیز ہے۔ آپ کو پڑھ کر سیکھنے کے لئیے کچھ نیا ملتا ہے۔ فکری اعتبار سے ٹھوس دلائل پر مبنی تحریر پڑھ کر عصر ِحاضر کے بہت سے مسائل، ان کا پس منظر اور پیش منظر سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

عامر رضا پروڈیوسر، رائٹر، اور ریسرچر کے طور پر اپنا لوہا منوا چُکے ہیں۔ کئی بڑے اداروں کے ساتھ وہ مختلف حیثیتوں میں وابستہ رہے۔ تقریباً سب بڑے ٹی وی چینلز پر ان کے تحریر کردہ ڈرامے چل چُکے ہیں۔ پچھلے دنوں ان کا سیریل “بریکنگ نیوز” بھی کافی اچھا گیا۔

288 صفحات پر مبنی زیرِ بحث کتاب میں اس بات کا احاطہ کیا گیا ہے کہ کس طرح سر مایہ دارانہ، سامراجی، فاشسٹ اور سوشلسٹ ریاستوں میں سینما نے پہلی عالمی جنگ سے سرد جنگ تک کے دور میں ریاستی بیانیے کو مقبولِ عام کلچر کا حصہ بنایا اور عوام کے ذہنوں میں راسخ کیا۔ کتاب پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ سینما کو کیوں ذرائع ابلاغ کا موثر ہتھیار کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں، سوویت یونین، جرمنی، امریکی، اٹلی اور انگلستان نے اپنے اپنے طریقے سے سینما سے فائدہ اٹھایا اور سینما کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔

پہلے باب میں مصنّف نے ایجنڈا سیٹنگ کے حوالے سے مختصراً پاکستانی سینما پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں ہر شعبے کی طرح سینما زوال پذیر نہیں بلکہ ایک طرح سے ختم ہی ہو چکا ہے۔ کبھی کبھار اکا دُکا فلم بن جاتی ہے۔ معروف شاعر، مصنّف اور ڈائریکٹر سرمد صہبائی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فلم عسکری ادارے بناتے ہیں یا این جی اوز۔

ایسی فلموں میں زبر دستی ایجنڈ ا گھسیڑا جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر فلمیں تمام تر مشہوری اور کوشش کے باوجود نہ مقبولیت حاصل کر پاتی ہیں اور نہ ہی بزنس۔

دراصل یہ بزنس اور فلمی ترقی کا کامیاب ماڈل ہے ہی نہیں۔ اگر آپ کے ملک میں فلم بننے اور اس کے کامیاب ہونے کا ماحول ہی نہیں اور آپ محض کسی خاص مقصد کے تحت ہی فلم بنواتے اور ریلیز کرتے ہیں تو کسی بھی فلم کی کامیابی کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔

بھارت جہاں فلم ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چُکی ہے۔ ان کا اور ہمارا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ وہاں بے شمار فلمیں بنتی اور ریلیز ہوتی ہیں۔ وہاں بہت اچھی، درمیانی اور بُری پروڈکشن بھی ہوتی ہے۔ وہاں ہونے والے بہت سے کام میں آسان ہوتا ہے کہ بیچ میں کہیں چُپکے سے اپنا پیغام بھی ڈال دیا۔

معروف دانش ور اور استاد ڈاکٹر مہدی حسن مرحوم کہا کرتے تھے کہ پراپیگنڈا کا پہلا اصول یہ ہوتا ہے کہ اس بات کا پتا نہ چلے کہ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔

پچھلے برس ایک موبائل کمپنی نے پاکستان کے پچھترویں یومِ آزادی پر مُختصر دورانیے کی فلم بنائی تھی جس میں پاکستان کے قومی ترانے کی دھن کے خالق عبدالکریم چھاگلہ کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا تھا۔ یو ٹیوب پر اس فلم کو ڈیڑھ ملین سے زائد لوگ دیکھ چُکے ہیں۔ اس فلم کو تحریر اور ڈائریکٹ سرمد چیمہ نے کیا۔ سرمد چیمہ ایک ہونہار او ر قابل نوجوان ہے۔ سرمد نے این سی اے لاہور سے میوزکالوجی میں گریجوایشن کی اور بعد ازاں سکالر شپ پر آکسفورڈ سے فلم پڑھی۔ آج کل وہ پی ایچ ڈی کر رہا ہے اور بیکن ہاؤس یونیورسٹی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ میں پڑھا بھی رہا ہے۔

پچھلے دنو ں سرمد نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک کنٹینر میں عام لوگوں تک فلم کی رسائی بنانے کے پروگرام کا آغاز کیا ہے۔

ان کا خیال ہے کہ فلم ہر خاص عام کی خالصتاًتفریح کا ذریعہ ہے۔ جس فلم کو ریڑھی بان، مزدور یا عام آدمی نہیں دیکھ پاتا وہ کیسےپاپو لر ہوگی۔ ملٹی پلیکسز تک عام آدمی کی رسائی نہیں لہذا جب تک وہ فلم کے ساتھ نہیں جُڑتا فلمی ماحول نہیں بن سکتا۔ جب تک یہ ماحول نہیں بنے گا فلم بھی کامیاب نہیں ہوگی۔ کچی ٹاکی طرز پر موبائل کینٹینر سینما بنا کر سرمد عام آدمی کو اس کے قریب لا نا چاہتا ہے۔ سرمد نے اپنے اس پراجیکٹ کا افتتاح این سی اے لاہور کے وائس چانسلر مرتضٰی جعفری سے کروایا ہے۔ یہ وہی جعفری صاحب ہیں جنھوں نے میو سکول آف آرٹس (این سی اے کا پرانا نام)کے پہلے دیسی پرنسپل بھائی رام سنگھ پر فلم بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اخبارات میں بھی ایک زمانے میں اس حوالے سے بہت خبریں آئی تھیں۔ یہ بات بھی چلی تھی کہ بھائی رام سنگھ کے کردار کے لئیے امیتابھ بچن سے بات چل رہی ہے۔ مبینہ طور پر مرتضٰی جعفری صاحب نے سرمد صہبائی سے یہ فلم لکھوا کر پیسے بھی نہیں دیے۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی حالاں کہ موضوع عامر رضا کی کتاب “سیاست، سینما، سماج “تھا۔ عامر نے پورے حوالہ جات کے ساتھ جس طرح یہ کتاب مرتب کی صاف پتا چلتا ہے کہ فلم کے موضوع پر ان کی بہت گرفت ہے۔

یقین نہیں آتا انھوں نے اتنی فلمیں کیسے دیکھ لیں اور پھر کامیابی سے ان کا ایک خاص زاویے سے تجزیہ بھی کیا۔ دنیا نے کس طرح رائے سازی کے لئیے سینما کا استعمال کیا ہے یہ جاننے کے لیےعامر رضا کی کتاب بہت مدد دے سکتی ہے۔ اردو میں ایسی کتاب کا لکھا جانا بہت قابلِ تعریف اور حوصلہ افزاء ہے۔ قبل ازیں، اس حوالے سے اردو میں ڈاکٹر ناظر محمود کا قابل ِ ذکر کام نظر آتا ہے۔

فلم میں دل چسپی رکھنے والے دوستوں کو “سیاست، سینما، سماج “پڑھ کر اچھا لگے گا۔ ایک ہزار قیمت والی اس کتاب کو “فکشن ہاوس، مزنگ روڈ، لاہور “نے شائع کیا ہے۔

عامر کو ایک اور اچھی کاوش پرمبارک باد۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp