بھاری ٹیکسز سے بھرپور پارلیمنٹ سے منظور ہونے والا آئندہ مالی سال کا بجٹ عام پاکستانیوں کی زندگی کو مزید مشکل بنا دے گا اور حکمرانوں پر اعتماد کو مزید نقصان پہنچائے گا۔ کیونکہ اس بجٹ میں اضافی ٹیکسوں کی بھارمار سے اشیاصرف کی قمیتوں پر براہِ راست اثر پڑے گا، اس کا زیادہ نشانہ متوسط آمدنی والے افراد ہوں گے۔
مزید پڑھیں
ڈان اخبار میں شائع تجزیہ کے مطابق حکومت نے اپنے بڑھتے ہوئے اخراجات کو فنانس کرنے اور آئی ایم ایف سے ایک بڑا بیل آؤٹ ڈیل حاصل کرنے اور 13ٹریلین کے ٹیکس ریونیو کا ہدف پورا کرنے کے لیے، 1.7 ٹریلین روپے کا اضافی ٹیکس عائد کیا ہے۔
وزیر اعظم سے لے کر نیچے تک ہر عہدیدار نے اس بجٹ کو اگلے چند سالوں میں ایک عظیم معاشی تبدیلی کی امید بنا پیش ہے، لیکن اس کے اہداف کی دیانتداری اور اس سے متعلق اقدامات پر پہلے ہی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
آخری لمحات میں فنانس بل میں کی جانے والی تبدیلیاں، جس کے مطابق اصل بل میں موجود 1.5 ٹریلین روپے کے علاوہ 200 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات شامل تھے، حکومت کے اپنے اہداف پر عدم اعتماد پیدا کیا ہے۔
تجزیہ کے مطابق بہت سے معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل نہیں کر پائے گی۔ اس لیے کہ ضروری اقدامات کے بغیر ٹیکس وصولی میں براہِ راست 48 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ نیز یہ کہ موجودہ معاشی سست روی اور اکثریت کی قوت خرید میں کمی کے پیش نظر اگلے سال بالواسطہ ٹیکسوں میں 35 فیصد اضافے کا تخمینہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ موجودہ بجٹ کا مقصد بجٹ خسارے کو کم کرنا ہے اور اگلے 3 سالوں میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب موجودہ 9.5 فیصد سے بڑھا کر 13 فیصد کرنا ہے۔ تجزیے کے مطابق بجٹ کی تفصیلات بیان بازی سے میل نہیں کھاتیں۔ متعارف کرائے گئے اقدامات وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے وعدے کے برعکس ہیں۔