آصف علی زرداری کہتے ہیں کسی کے پیسوں میں کٹوتی نہیں ہونی چاہیے، سینیٹر روبینہ خالد

بدھ 3 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ مجھے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہا کہ کسی کے پیسوں میں کٹوتی نہیں ہونی چاہیے، اور بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ لوگوں کی عزت نفس مجروح کیے بغیر ان تک پیسے پہنچنے چاہییں۔ یہ غریب، نادار اور بے بس مجبور عورتوں کا پروگرام ہے اور اس میں خرد برد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

وی نیوز کے زیر اہتمام بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے طریقہ کار اور افادیت سے متعلق ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا، جس میں پروگرام کی چیئرپرسن روبینہ خالد اور سنیئر صحافیوں نے شرکت کی۔ وی نیوز سے وابستہ سینئر صحافی عمر چیمہ، مہتاب حیدر، فخر درانی، کے علاوہ سینئر صحافی ابصار عالم، حماد صافی، مرتضٰی رائے اور دیگر نے پروگرام کی چیئرپرسن سے سوالات کیے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وی نیوز کے چیف ایڈیٹر عمار مسعود نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں متعدد سوالات ہیں، حال ہی میں خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی جو اس سے قبل بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کی سربراہی بھی کرچکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 9ہزار روپے جو اس پروگرام کے تحت مستحق خواتین تک پہنچائے جاتے ہیں، یہ پیسے پہنچانا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ راستے میں کوئی ایجنٹ، کوئی بینک کلرک ان کے کچھ پیسے کھا جاتا ہے تو اس حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات ہیں۔

مزید پڑھیں: بل گیٹس کی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی تعریف، بہترین فلاحی پروجیکٹ قرار دے دیا

پروگرام کی چیئرپرسن روبینہ خالد نے کہا کہ یہ پروگرام محترمہ بینظیر بھٹو کی اپنی سوچ تھا، اور اس کے بارے میں انہوں نے اپنی جلاوطنی کی دوران سوچا کہ اپنے ملک کی خواتین کے لیے کچھ کروں۔ روبینہ خالد نے کہا کہ اس ادارے کی سربراہ کے طور پر اور چونکہ بینظیر بھٹو ان کی لیڈر بھی تھیں، وہ اپنے کندھوں پر بہت بڑی ذمے داری محسوس کرتی ہیں۔

’پوری دنیا میں اس طرح کے پروگرام ہوتے ہیں، امریکا یورپ میں بھی ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے لوگوں کو بھکاری بنایا جا رہا ہے جبکہ باقی دنیا میں ایسا نہیں کہا جاتا‘۔

روبینہ خالد نے کہا کہ یہ پروگرام بے نظیر بھٹو کے اپنے ذہن کی تخلیق تھا لیکن اس پروگرام کا نام تبدیل کرنے کی بڑی کوشش کی گئی جو کہ انٹیلیکچوئل ڈس آنیسٹی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت اس پروگرام سے 90لاکھ سے زائد خواتین مستفید ہو رہی ہیں، اس پروگرام نے خواتین کو شناخت دی ہے۔

’ایسے معاشرے جہاں خواتین کو خاندان کا حصہ بھی تصور نہیں کیا جاتا، وہاں خواتین کے نام پر پیسے جاتے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: بل گیٹس کی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی تعریف، بہترین فلاحی پروجیکٹ قرار دے دیا

انہوں نے کہا کہ باقی صوبوں کی نسبت بلوچستان میں ہم نے بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے حصول کا طریقہ کار نرم رکھا ہے، انہوں نے شکوہ کیا کہ بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے بارے میں منفی باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن مثبت باتیں کم ہوتی ہیں۔

’مستحق افراد تک پیسے پہنچانے کے لیے ابھی بھی بہت مشکلات ہیں، کیونکہ لوگ درمیان میں پیسے کھا جاتے ہیں‘۔

معروف صحافی فخر درانی نے سوال کیا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام لوگوں کے مستحق ہونے کے بارے میں کیسا فیصلہ کرتا ہے؟ اس پر روبینہ خالد نے جواب دیا کہ جب کوئی مستحق فرد ہمیں اپروچ کرتا ہے تو کمپیوٹر آپریٹر اس کا ڈیٹا انٹر کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے کنٹرول میں نہیں رہتا پھر اس کو ایف بی آر اور دیگر محکموں کے ساتھ لنک کردیا جاتا ہے۔

روبینہ خالد نے بتایا کہ صحت کارڈ ایک بہت اچھا پروگرام تھا لیکن اس کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ اس میں پرائیویٹ اسپتالوں کو بھی شامل کر دیا گیا اور اس کے اخراجات بہت بڑھ گئے تھے۔

صحافی مہتاب حیدر نے سوال کیا کہ میں تنقید کیا کرتا تھا کہ بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام سے نکلنے کی کوئی حکمت عملی نہیں، اس پروگرام کو مشروط کیا جا سکتا ہے کہ جیسے، جس کے بچے اسکول جاتے ہیں اس کو پیسے ملیں گے، جو حفاظتی ٹیکے لگوائیں گے ان کو پیسے ملیں گے، دوسرے اس ٹیکنالوجی کے دور میں خواتین کاؤنٹر سے جا کر پیسے کیوں لیتی ہیں، ان کے اے ٹی ایم کیوں نہیں بن سکتے؟

اس پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ اے ٹی ایم کے ذریعے خواتین کے شوہر پیسے لے جاتے تھے، کاؤنٹر سے پیسے لے کر ہم یقین دہانی کرتے ہیں خاتون نے خود پیسے لیے ہیں، دوسرا ہم نے اس پروگرام میں کچھ ایسی شرائط بھی رکھی ہیں کہ مثال کے طور پر اس پروگرام سے مستفید ہونے والے فرد کا بچہ تعلیم میں اگر 70فیصد نمبر لے گا تو اس کو اضافی پیسے دیے جائیں گے۔

بینظر انکم سپورٹ صوبوں کو منتقل کیے جانے سے متعلق ایک سوال پر روبینہ خالد نے کہا کہ یہ ڈونرز کا پروگرام ہے اور ڈونرز ایک ہی ادارے سے بات کرنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔

صحافی عمر چیمہ نے تجویز دی کہ بی آئی ایس پی کے ذریعے نادار افراد کو ہنر سکھا کر بیرون ملک بھی بھجوایا جا سکتا ہے، اس پر روبینہ خالد نے کہا کہ ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور یہ بھی جلد ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کی رقوم بینک اکاؤنٹس میں براہ راست منتقلی کا فریم ورک جاری

وی نیوز کے ڈائریکٹر نیوز وسیم عباسی نے بی آئی ایس پی کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا  کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی کامیابی یہ ہوگی، اس سے مستفید ہونے والے لوگوں کی تعداد میں کمی آئے، اور آپ لوگوں کو وسیلہ روزگار یا ہنر سکھا کر بیرون ملک بھجواتے چلے جائیں۔

بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان میں قدرتی آفات سے بہت لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے افراد فوری طور پر اپنی مالی صلاحیت کا اندازہ لگوا کر ادارے سے امداد لے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے پاس پاکستان کے مستحق افراد کا مکمل ڈیٹا موجود ہے اور قدرتی آفات کے وقت ہم حکومت کو آگاہ کرتے ہیں کہ اس علاقے میں اتنے لوگ غریب ہیں جن کو فوری طور پر مدد کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp