جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جعلی ڈگری کے الزام کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟

ہفتہ 6 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری سے متعلق کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی جانب سے مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے خط اور اس کے بعد سپریم جوڈیشل میں ریفرنس دائر کرنے کے جواب میں توقع ہے کہ سپریم جوڈیشنل کونسل (SJC) معزز جج کے خلاف مہم سے متعلق باضابطہ بیان جاری کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں:ججز خط ازخود نوٹس: ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت پر کچھ نہیں کرتے، چیف جسٹس

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ہائیکورٹ کے جج اس معاملے پر بات چیت کے لیے (آج) ہفتہ کو ایک اجلاس طلب کریں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز کئی سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس اور صحافیوں نے جسٹس جہانگیری کے خلاف مبینہ طور پر ایس جے سی کو بھیجے گئے خط اور ریفرنس کو شیئر کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ججز اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینیئر حکام کو خط کے بارے میں مطلع کیے جانے پر عدالتی انتظامیہ نے تردید جاری کرنے کی پیشکش کی، تاہم جسٹس جہانگیری نے ابھی تک اس کارروائی کی منظوری نہیں دی۔ رپورٹ کے مطابق آئی ایچ سی انتظامیہ نے معاملے کے حوالے سے کراچی یونیورسٹی سے رابطہ کیا ہے۔

معاملہ کیا ہے؟

یہ خط، جسے سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا، مبینہ طور پر سندھ ٹرانسپیرنسی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ، 2016 کے تحت معلومات طلب کرنے والی درخواست کا جواب ہے، جس میں کہا گیا کہ امیدوار طارق محمود نے 1991 میں انرولمنٹ نمبر 5968 کے تحت ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ تاہم، امتیاز احمد نے اسی انرولمنٹ نمبر کے تحت 1987 میں داخلہ لیا، جب کہ ایل ایل بی پارٹ I کا ٹرانسکرپٹ طارق جہانگیری کے نام سے جاری کیا گیا۔

ڈگری بوگس نہیں غلط ہے

اس کے علاوہ طارق محمود نے انرولمنٹ نمبر 7124 کے تحت ایل ایل بی پارٹ I کے لیے داخلہ لیا۔ خط میں ڈگری کو بوگس قرار نہیں دیا گیا بلکہ اسے غلط قرار دیا گیا ہے، اور وضاحت کی گئی کہ یونیورسٹی پورے ڈگری پروگرام کے لیے ایک انرولمنٹ نمبر جاری کرتی ہے، جس سے طالب علم کے لیے دو نمبر رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

حساس ادارے پر الزام

جسٹس جہانگیری ان 6 ججوں میں شامل ہیں، جنہوں نے پہلے ایس جے سی سے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف شکایت کی تھی اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) پر عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا تھا۔

شکایت میں ایک جج کے داخلی دروازے اور بیڈ روم پر جاسوس کیمروں کا پتا لگانے کے الزامات بھی شامل تھے، یہ معاملہ مبینہ طور پر چیف جسٹس تک پہنچایا گیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

’بلینکٹ پروٹیکشن‘

جسٹس جہانگیری گزشتہ سال مئی میں اس وقت سرخیوں میں آئے تھے جب انہوں نے فوجداری مقدمات میں سابق وزیراعظم عمران خان کو ’بلینکٹ پروٹیکشن‘  فراہم کیا تھا اور پولیس کو آئندہ مقدمات میں بھی انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

انتخابی عذرداریوں کی سماعت

حال ہی میں، وہ اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے رنر اپ کی انتخابی درخواستوں کی سماعت کر رہے تھے۔ تاہم، جیتنے والے مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے جج پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کے حق میں تعصب کا الزام لگایا۔

یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر

انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کے پاس درخواستیں دائر کیں، جس نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے والے صدارتی حکم کے تحت قائم کردہ انتخابی درخواستوں کو ٹربیونل میں منتقل کر دیا۔

تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ECP کے حکم کو معطل کرتے ہوئے انتخابی درخواستوں کو جسٹس جہانگیری کو واپس بھیج دیا۔ ان درخواستوں کی سماعت 9 جولائی کو ہونے والی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp