فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف حکومتی اپیل کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اپیل میں عدالت نے اصل فیصلہ میں غلطی دیکھنا ہوتی ہے، اٹارنی جنرل ہمیں اصل فیصلہ میں غلطی دکھائیں۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی لارجر بینچ کی جانب سے سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان روسٹرم پر آئے تو جسٹس عرفان سعادت بولے؛ اٹارنی جنرل صاحب انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں ہوسکتا، وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ایک ملزم کو فیملی سے نہیں ملنے دیا گیا، اس کا 5 سالہ بچہ فوت ہوگیا۔
اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آپ کا بیان عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے، آپ پہلے بتاتے تھے ہر ہفتہ ملزمان کی فیملی سے ملاقات ہوتی ہے، آپ اس کو جاری کیوں نہیں رکھتے۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیدیا
جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ عدالت کم از کم آج اس کیس کی میرٹ پر سماعت کا آغاز کرنا چاہتی ہے، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ اپیل میں عدالت نے اصل فیصلہ میں غلطی کو دیکھنا ہوتا ہے، اٹارنی جنرل کو ہمیں اصل فیصلہ میں غلطی دکھانا ہوگی۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان کی جانب سے ملزمان سے آج اہل خانہ کی ملاقاتوں کی یقین دہانی پر جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ کیا ہر سماعت پر ہمارا آرڈر درکار ہے، جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ ملزمان کا اگر جسمانی ریمانڈ ختم ہو گیا ہے تو وہ جیل میں کیوں نہیں ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملٹری کورٹس میں جوڈیشل ریمانڈ نہیں دیا جاتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ ملزمان کے اہل خانہ سے ملاقات کے لیے فوکل پرسن کون ہے، جس پر ڈائریکٹر لا بریگیڈیئر عمران عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ہدایت کی ملاقات میں جن کا بچہ فوت ہوا ہے ان کو ترجیح دی جائے۔
مزید پڑھیں: ملٹری کورٹس میں سویلین ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلیں، گزشتہ سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری
دوران سماعت جسٹس شاہد وحید اور جسٹس محمد علی مظہر کے درمیان جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، جسٹس شاہد وحید نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمیں غلطی دکھائے بغیر ہم سے نیا اور الگ فیصلہ چاہتے ہیں، اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ اپیل میں اگر کیس آیا ہے، تو پھر سب کچھ کھل گیا ہے، جس پر جسٹس شاہد وحید کا کہنا تھا کہ یہ نکتہ نظر ان کے ساتھی جج کا ہوسکتا ہے ان کا نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپیل میں آپ کو سن رہے ہیں، آپ کو ہمیں فیصلے میں غلطی دکھانا ہو گی، جسٹس شاہد وحید بولے؛ ساتھی جج نے آپ کو جواب دیا ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ میں نے کوئی جواب نہیں دیا، ایک قانونی نکتے کی بات کی ہے۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ دلائل دیں ہم جو ہوا فیصلے میں دیکھ لیں گے، جسٹس شاہد وحید کا کہنا تھا کہ اگر اپیل میں سب کچھ ہوسکتا ہے تو کیا ہم کیس ریمانڈ بیک بھی کرسکتے ہیں، جسٹس عرفان سعادت بولے؛ اٹارنی جنرل آپ ایک جواب دے سکتے ہیں کہ یہ نظر ثانی نہیں اپیل ہے۔
مزید پڑھیں: ملٹری کورٹس: جو ملزمان بری ہوسکتے ہیں کریں باقی قانونی لڑائی چلتی رہے گی، سپریم کورٹ
اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ یہی کہہ رہے ہیں نا کہ اپیل کا اسکوپ وسیع ہے، بس آگے چلیں۔
آرمی ایکٹ کی کالعدم شقوں سے متعلق دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کا کہناتھا کہ وفاق یہاں عدالت کے سامنے ایک قانون کا دفاع کرنے کھڑا ہے، جسے عدالت کو سراہنا چاہیے، جس قانون کو کالعدم قرار دیا گیا وہ ایسا تنگ نظر قانون نہیں تھا۔
جسٹس شاہد وحید نے دریافت کیا کہ کیا اپیل کا حق ہر ایک کو دیا جا سکتا ہے، ہر کسی کو اپیل کا حق دیا گیا تو یہ کیس کبھی ختم نہیں ہوگا، کل کو عوام میں سے لوگ اٹھ کر آجائیں گے کہ ہمیں بھی سنیں، اپیل دائر کرنے کے لیے متاثرہ فریق ہونا ضروری ہے۔
جسٹس جمال خان مندو خیل بولے؛ ایک قانون سارے عوام سے متعلق ہوتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ وہ اس حد تک جسٹس شاہد وحید سے متفق ہیں کہ اپیل کے لیے متاثرہ فریق ہونا لازم ہے۔
جسٹس شاہد وحید نے دریافت کیا کہ کیا اس کیس میں اپیل دائر کرنے کے لیے وفاقی کابینہ سے منظوری ضروری نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس ضمن میں کابینہ سے منظوری لازمی نہیں ہے، انہوں نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل سننے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے کوئی سوال ہوئے تو وہ موجود ہوں گے۔
خواجہ حارث روسٹرم پر آئے تو جسٹس امین الدین نے انہوں باور کرایا کہ خواجہ صاحب ایک دو چیزیں پہلے نوٹ کر لیں، بظاہر یہ کیس عدالت میں 9 مئی واقعات پر آیا، اس کیس میں کیا قانونی شقیں چیلنج ہوسکتی تھی۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف اپیلیں سننے والے بینچ کی تبدیلی کی استدعا
اس موقع پرایڈوکیٹ فیصل صدیقی نے وڈیو لنک کے ذریعے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے متفرق درخواست دائر کر رکھی ہے کہ پرائیویٹ وکیل حکومت کی نمائندگی نہیں کرسکتا لہذا خواجہ حارث کے دلائل سے قبل ان کی درخواست نمٹائیں ورنہ غیر موثر ہوجائے گی۔
جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ پہلی بار تو نہیں ہوا کہ پرائیویٹ وکیل حکومت کی جانب سے آیا ہو، جس پر فیصل صدیقی کا موقف تھا کہ عدالت کئی بار اس پریکٹس کی حوصلہ شکنی کرچکی ہے، پرائیویٹ وکیل کو حکومت کی نمائندگی کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بطور جج دیا تھا۔
مذکورہ عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل کے پاس متعلقہ کیس پر مہارت نہ ہو تو ہی پرائیویٹ وکیل کیا جاسکتا ہے، اٹارنی جنرل کو لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ ان کے پاس متعلقہ مہارت نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: 9 مئی کے ملزمان کے ٹرائل فوجی نہیں، عام عدالتوں میں ہونے چاہییں، علی محمد خان
جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل کو اختیار ہے جس وکیل سے چاہے معاونت لے سکتا ہے، جس کے بعد عدالت نے خواجہ حارث کو وزارت دفاع کی جانب سے دلائل دینے کی اجازت دے دی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کردیا۔
جسٹس شاہدوحید نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا فردجرم سے قبل کیس ٹرانسفر ہوسکتاہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے اضافہ کرتے ہوئے پوچھا کہ کیس فردجرم سے قبل یا بعد میں کسی بھی مرحلے پر ٹرانسفر ہوسکتا ہے، جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث کو کیس کے دائرہ اختیار کے حوالے سے بھی عدالت کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی۔
فوجی عدالتوں میں سویلیز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی ہے، سپریم کورٹ کے 7 رکنی لارجر بینچ کی دستیابی پر کیس کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔