اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری سے منسوب سوشل میڈیا پوسٹس کو جعلی قرار دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری سے منسوب تمام پوسٹیں جعلی ہیں۔
اعلامیہ میں وضاحت کی گئی ہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کا سوشل میڈیا ایکس پر کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے، سوشل میڈیا پر جو پوسٹس ان سے منسوب کی جارہی ہیں وہ فیک ہیں۔
مزید پڑھیں: جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جعلی ڈگری کے الزام کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
یاد رہے جسٹس طارق محمود جہانگیری ان 6 ججوں میں شامل ہیں جنہوں نے پہلے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) سے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف شکایت کی تھی اور آئی ایس آئی پر عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا تھا۔
واضح رہے کہ چند روز قبل کئی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس اور صحافیوں نے جسٹس جہانگیری کے خلاف مبینہ طور پر ایس جے سی کو بھیجے گئے خط اور ریفرنس کو شیئر کیا تھا۔
یہ بھی یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری سے متعلق کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی جانب سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے خط اور اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کیے گئے ریفرنس کے بعد اس حوالے سے توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
ججز اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینیئر حکام کو خط کے بارے میں مطلع کیے جانے پر عدالتی انتظامیہ نے تردید جاری کرنے کی پیشکش کی، تاہم جسٹس جہانگیری نے ابھی تک اس کارروائی کی منظوری نہیں دی۔ رپورٹ کے مطابق آئی ایچ سی انتظامیہ نے معاملے کے حوالے سے کراچی یونیورسٹی سے رابطہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس طارق محمود جہانگیری مخالف سوشل میڈیا مہم کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی میں فریقین کو نوٹسز جاری
یاد رہے یہ خط، جسے سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا، مبینہ طور پر سندھ ٹرانسپیرنسی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ، 2016 کے تحت معلومات طلب کرنے والی درخواست کا جواب ہے۔
جس میں کہا گیا کہ امیدوار طارق محمود نے 1991 میں انرولمنٹ نمبر 5968 کے تحت ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ تاہم، امتیاز احمد نے اسی انرولمنٹ نمبر کے تحت 1987 میں داخلہ لیا، جب کہ ایل ایل بی پارٹ I کا ٹرانسکرپٹ طارق جہانگیری کے نام سے جاری کیا گیا۔