بنگلہ دیش میں جاری مظاہروں کے پیش نظر ڈھاکہ میں پاکستانی ہائی کمیشن نے وہاں مقیم پاکستانی طلبہ کو مشورہ دیا ہے کہ اپنے حفاظت یقینی بناتے ہوئے وہ کیمپس میں اپنے کمروں سے باہر نہ نکلیں۔
بدھ کو دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی ہائی کمیشن نے طلبہ کو اپنی حفاظت کے لیے ہر ممکن احتیاط برتنےاور احتجاج سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کیمپس میں رہنے والوں کو اپنے ہاسٹل کے کمروں میں رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی طلبہ بھارتیوں پر سبقت لے گئے
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بنگلہ دیش میں پاکستانیوں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمشنر سید معروف سے ٹیلی فون پر بات کی اور وہاں مقیم پاکستانیوں بالخصوص ڈھاکہ کے کیمپس میں مقیم طلبہ کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنے کی ہدایت کی۔
سفیر سید معروف نے وزیر خارجہ کو سیکیورٹی کی صورتحال اور بنگلہ دیش میں پاکستانیوں کی خیریت کو یقینی بنانے کے لیے ہائی کمیشن کی جانب سے کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سفارت خانے نے مصیبت میں مبتلا افراد کی سہولت کے لیے ایک ہیلپ لائن کھولی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی طلبہ کے لیے ہنگری میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع، اسکالرشپ پروگرام 25-2024 کا اعلان کردیا گیا
نائب وزیراعظم نے پاکستان کے ہائی کمشنر کو بنگلہ دیش میں مقیم پاکستانیوں بالخصوص ڈھاکہ کے کیمپس میں مقیم طلبہ کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے سفیر سید معروف کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستانی طلبہ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مقامی حکام کے ساتھ قریبی رابطے میں رہیں۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں گزشتہ روز سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہوگیا۔ اس دوران 2 طلبہ گروپوں میں تصادم کے نتیجے میں 6 طلبہ ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی طلبہ کے لیے سعودی عرب کی 25 یونیورسٹیوں میں 700 مکمل فنڈڈ اسکالرشپس کے مواقع
بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کے مطالبات ماننے سے انکار کے بعد مظاہروں میں شدت آئی ہے۔ احتجاج کے دوران ریلوے ٹریکس اور بڑی شاہراہیں بلاک کردی گئی تھیں۔ طلبہ نے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
طلبہ کے احتجاج کے دوران پرتشدد واقعات کو روکنے کے لیے پولیس تعینات کرنی پڑی۔ مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کے بعد ملک بھر میں اسکولوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا، جبکہ نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے نیم فوجی دستوں کو متحرک کر دیا گیا۔