پشاور یونیورسٹی کی بی ایس کی طالبہ اور ضلع خیبر کی رہائشی ماریہ آفریدی کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع کی خواتین اب وراثت میں اپنے جائز حصے کے بارے میں زیادہ باشعور ہو رہی ہیں اور انہوں اس کے لیے آواز اٹھانی شروع کر دی ہے تاہم اسے قبائلی معاشرے میں اب بھی ایک ناپسندیدہ عمل تصور کیا جاتا ہے۔
جمرود سے منتخب کونسلر بیگم قیوم آفریدی کا بھی اصرار ہے کہ عدلیہ کی توسیع اور لینڈ رجسٹریشن مینجمنٹ اتھارٹی کے متعارف ہونے سے وراثت میں مقامی خواتین کے جائز حصے کو یقینی بنانے میں بھی مدد ملے گی جس کی ضمانت اسلام اور آئین دونوں نے دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وراثت سے محروم رکھنے کے لیے خاتون کیخلاف مقدمہ بازی پر سپریم کورٹ برہم
انہوں نے قبائلی خواتین سے ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ وراثت میں اپنے حصے کے بارے میں پوری طرح سے آگاہ نہیں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جن خواتین سے بات کی وہ یا تو ان پڑھ تھیں یا انہیں ان کے خاندان کے مردوں نے وراثت میں ان کا جائز حصہ چھیننے کے لالچ میں انہیں اس سے لاعلم رکھا تھا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ سابقہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے بعد حالات بدل چکے ہیں اور قبائلی خواتین نے اب اولین ترجیح کے طور پر اپنی شکایات کے ازالے کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جب تک خواتین کے کردار کو تسلیم نہیں کرلیا جاتا تب تک قبائلی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔
قبائلی اضلاع میں وراثت سے متعلق آگاہی ناگزیر ہے
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والی سابق رکن صوبائی اسمبلی بصیرت بی بی نے خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے کے بڑھتے رجحان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ خیال ظاہر کیا کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک پسماندگی کا شکار ہمارے قبائلی اضلاع میں صرف 3 فیصد خواتین کو ہی جائیداد میں حصہ دیا جاتا ہوگا۔
بصیرت بی بی نے کہا کہ سول سوسائٹی کے لوگ، مقامی انتظامیہ، میڈیا اورسیاستدان اس اہم ایشو پر کام تو کررہے ہیں لیکن اس معاملے کے حل کے لیے مذہبی جماعتوں، جرگہ وحجرہ مشران سمیت خاندانی سربراہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ مردوں کو تربیت دی جائے تب ہی بہترنتیجہ نکلے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہنوں، بیٹیوں کو جائیداد میں ان کا حصہ ملنا چاہیے کیونکہ عورت کو یہ حق اسلام اور قانون میں حاصل ہے۔
وراثت کے حوالے سے دین اسلام کا حکم
مذہبی اسکالر محمد اسرار مدنی بتاتے ہیں کہ والدین کی میراث میں نرینہ اولاد کی طرح بیٹیوں کا بھی شرعی حق اور حصہ ہوتا ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کی جائیداد پر بیٹوں کا قبضہ کرلینا اور بہنوں کو ان کا حق نہ دینا اور شرعی حصے سے محروم کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
مزید پڑھیے: خواتین کی تعلیم کی مخالفت کرنے والے لوگ جہلا ہیں، چیئرمین پاکستان علما کونسل علامہ طاہر اشرفی
انہوں نے کہا کہ بہنوں کو ان کا حق اور حصہ اس دنیا میں دینا لازم اور ضروری ہے ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور وہاں دینا آسان نہیں ہوگا۔
محمد اسرار مدنی نے کہا کہ احادیثِ مبارکہ میں اس بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں لہذا میراث میں سے عورتوں کو ان کا حصہ لازمی طور پر دینا چاہیے۔
وراثت، میراث اور جہیز میں فرق
دیوانی مقدمات کے ماہرعبدالہادی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ وراثت، جہیز اور مہر تینوں مختلف چیزیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وراثت یا میراث کسی عورت کو اپنے والدین، بہن بھائی یا شادی کی صورت میں شوہر اور بچوں سے بھی مل سکتی ہے لیکن مورث کا مرنا اور میراث میں کچھ باقی رہ جانا لازمی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کے جہیز بیٹی کی شادی میں والدین کی طرف سے دیا جانے والا سامان ہوتا ہے جو ایک روایتی عمل ہے جبکہ مہر عورت کو شادی یا نکاح کے بدل میں شوہر کی طرف سے ملتا ہے۔
جائیداد کے حصول میں کونسی بڑی رکاوٹیں ہیں؟
پشاورہائیکورٹ کی وکیل مہوش محب کاکاخیل نے اس اہم موضوع پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی چینلز، ریڈیواور اخبارات پر پراپرٹی ایکٹ 2021 کے نئے قانون سے متعلق مسلسل پروگرام نشر ہونے اوررپورٹیں آنے کی وجہ سے لوگوں میں جائیداد کے حوالے سے آگاہی پیدا ہورہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس جائیداد بالخصوص وراثت بابت کیسزرجسٹر ہورہے ہیں اور زیادہ تر خواتین اپنے حق کے لیے عدالت سے رجوع کررہی ہیں۔
مزید پڑھیں: قبائلی اضلاع میں لڑکیاں امتیازی سلوک کا شکار کیوں؟
مہوش محب کاکاخیل نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں خواتین کی وراثتی جائیداد سے محرومی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے شناختی کارڈ نہیں بنوائے جاتے یا پھران کی دوردرازعلاقوں میں شادی کروادی جاتی ہے اور وہ واپس نہیں آسکتیں جس کے باعث انہیں جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا اسی طرح مرجڈ ایریاز میں زمینوں کا لین دین زبانی یا اسٹامپ پیپرزکے ذریعے ہوا کرتا ہے اور لینڈ ریونیو ریکارڈ کا نہ ہونا بھی جائیداد میں خواتین کے حصے کے حصول میں بڑی رکاوٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے بہت سے کیسزہمارے پاس آتے ہیں جنہیں ہم صوبائی محتسب کے پاس جمع کراتے ہیں لیکن لینڈ ریونیو ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے قبائلی خواتین کواپنے حق کے حصول میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پراپرٹی ایکٹ 2021ء کے تحت پورے صوبے کی خواتین اپنی وراثتی جائیداد کے حق کے لیے صوبائی محتسب کے پاس آسکتی ہیں، یہاں وہ کیسز بھی رجسٹرڈ ہوسکتے ہیں جوکہ پہلے سے عدالتوں میں زیرسماعت ہیں اور وراثتی جائیداد میں خاوند یا اولاد کی جانب سے ناجائز قبضہ یا نکاح نامہ میں درج پراپرٹی واگزار کرانے کے لیے بھی خواتین محتسب کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہیں۔
ان خواتین کے لیے جوگھروں سے باہر نہیں نکل سکتیں محتسب نے آن لائن اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے بھی کیسزرجسٹرڈ کرنے کی سہولت دی ہے۔
جائیداد سے متعلق کیسوں کی تعداد کتنی ہے؟
صوبائی محتسب برائے خواتین کے وراثت میں حقوق کے تحفظ سے اب تک حاصل کردہ دستاویز کے مطابق وراثت میں حصہ مانگنے کے لیے صوبے سے 1700 سے زائد خواتین نے شکایات دائر کی ہیں جن میں سے ایک ہزار کے قریب کیسز تاحال زیر سماعت ہیں۔
صوبائی محتسب کو درپیش مسائل
صوبائی محتسب رخشندہ ناز نے بتایا کہ صوبائی محتسب کا دفتر سنہ 2019 میں قائم ہواتھا جہاں زیادہ تر خواتین اپنے حق مہر، ہراسگی، زرعی اراضی اور وراثتی جائیداد کے حوالے سے اپنی شکایات جمع کراتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت بندوبستی اضلاع سمیت قبائلی ضلع کرم، خیبر، مہمند، وزیرستان، اورکزئی اور درہ آدم خیل سے جائیداد کے حوالے سے شکایات جمع کرائی گئی ہیں۔
محتسب نے کہا کہ شکایات موصول ہونے پر انکوائریز کی جاتی ہیں اور فریقین کی طرف سے زیادہ پریشرآتا ہے تو پھرکمیشن کے ذریعے انکوائری کراتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس جائیداد سے متعلق 1700 سے زائد کیسزرجسٹرڈ ہیں جن میں سے 500 سے زائد کیسزنمٹا دیے گئے ہیں اور 200 سے زائد کیسوں میں شکایت کنندگان کوپراپرٹی مل چکی ہے اور کچھ میں مفاہمت ہوئی ہے جبکہ بعض کیسز کواختیارات نہ ہونے کے باعث انکوائریز مکمل کرکے ریفرنس بنا کر تفصیلی شہادتوں وثبوتوں کے لیے دیوانی عدالت ریفر کردیتے ہیں تاکہ عدالت اس پر مزید کارروائی مکمل کرکے آرڈر جاری کرسکے۔
یہ بھی پڑھیں: غگ، ایک عورت دشمن قبائلی رسم
رخشندہ ناز نے کہا کہ ان کے پاس 20 ملازمین پرمشتمل عملہ ہے جوانتہائی کم ہے صوبے کے کسی بھی ضلع میں ریجنل دفترنہیں ایک محتسب پورا صوبہ سنبھال رہی ہے اس کے باوجود مختلف ڈونرزکی مدد سے پشاورمیں لیگل ڈیسک قائم کیا ہے جہاں خواتین وکلا شکایت کنندگان کی کمپلینٹ سنتی ہیں اور اس کے علاوہ بذریعہ ای میل، ٹیلیفون اور سوشل میڈیا پربھی شکایات کو سنا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جائیداد کے حوالے سے ڈپٹی کمشنرآفسزمیں آگاہی بینرزآویزاں کردیے گئے ہیں اور ریونیوسٹاف کی باقاعدگی کے ساتھ ٹریننگ کرائی جاتی ہے، ہراسمنٹ سے متعلق بھی سیمیناراورآگاہی سیشن تواتر کےساتھ ہوتے ہیں جبکہ قبائلی اضلاع میں وراثتی جائیداد کے حوالے سے شعورکی بیداری کے لیے آگاہی مہمات چلائی جائیں گی۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ صوبائی محتسب کے مؤثرکردار کے لیے نہ صرف عملے میں اضافہ کیا جائے بلکہ ڈویژنل سطح پر دفاتر بھی قائم کیے جائیں۔
جائیداد سے متعلق قوانین
آئین پاکستان کے آرٹیکل 23 کے مطابق ہر شہری کو پاکستان کے کسی بھی حصے میں جائیداد حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ مجموعہ تعزیرات پاکستان (پاکستان پینل کوڈ 1860) کے سیکشن 498 اے کے مطابق جو کوئی بھی غیر قانونی طریقے سے کسی بھی عورت کو منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کی وراثت سے محروم کرتا ہے اسے قید کی سزا دی جائے گی جس کی مدت 5 سال سے لے کر 10 سال تک ہو سکتی ہے یا 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں۔
مزید پڑھیے: قبائلی اضلاع میں لڑکیاں امتیازی سلوک کا شکار کیوں؟
خیبرپختونخوا اسمبلی ویب سائٹ سے حاصل کردہ خیبرپختونخوا انفورسمنٹ آف ویمن اونر شپ رائٹس ایکٹ 2012 کے سیکشن 3 کے مطابق کوئی شخص کسی عورت کی ملکیت کے حق میں تخریب، خلاف ورزی، یا رکاوٹ نہیں ڈالے گا ایکٹ کے سیکشن 4 میں لکھا گیا ہے جو شحص بھی سیکشن 3 کی خلاف ورزی کرے گا اسے 5 سال قید یا 50 ہزار روپے تک کیا جائے گا۔ ایکٹ سیکشن 4 کی ذیلی دفعہ 3 کے مطابق جب بھی کوئی عورت مقدمہ دائر کرے گی تو عدالت 6 ماہ میں مقدمہ کا فیصلہ کرے گی اور حکم نامے کو مقامی پولیس کے ذریعے 1 ماہ کے اندر نافذ کیا جائے گا اور ایسا نہ کیا تو اس صورت میں مذکورہ افسر کو دفعہ 5 کے تحت چارج کر کے 5 سال تک قید یا 50 ہزار روپے تک جرمانہ کیا جائے گا۔
خیبر پختونخوا انفورسمنٹ آف ویمنز پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2019 کے سیکشن 4 کے مطابق کوئی بھی خاتون وراثت میں حصے سے محروم ہو جائے تو وہ سول کورٹ کی بجائے محتسب کے پاس شکایت درج کروا سکتی ہے۔