جب مخصوص نشستوں پر نظرثانی اپیلیں گرمیوں کی چھٹیوں کی نذر ہوگئیں

پیر 22 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ مقدمات کی شنوائی اور بینچز کی تشکیل کے لیے تین سینئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی کو سیکرٹری نے بتایا ’ پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دئیے جانے کے فیصلے کے خلاف دو نظرثانی درخواستیں دائر ہوئی ہیں جن کی فوری سماعت کی ضرورت ہے، کیونکہ پندرہ دن میں جب اس فیصلے پر عملدرآمد ہو جائے گا تو یہ درخواستیں غیر موثر ہو جائیں گی‘ اس پر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 1980 کے تحت جن 13 ججوں نے یہ مقدمہ سنا وہی نظرثانی درخواست بھی سن سکتے ہیں۔ اور اس وقت سپریم کورٹ میں موسم گرما کی چھٹیاں چل رہی ہیں اور زیادہ تر ججز ملک سے باہر ہیں۔‘

یہ اقتباس اس کمیٹی میٹنگ کے منٹس سے لیا گیا ہے جس نے 18 جولائی کو مخصوص نشستوں کے فیصلے سے متعلق درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کرنے سے اس بناء پر انکار کر دیا تھا کہ گرمیوں کی چھٹیاں چل رہی ہیں۔

اس گفتگو کے دوران چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ آئین میں نظرثانی کا حق دیا گیا ہے، جس پر چھٹی پر موجود جسٹس منیب اختر نے ویڈیو لنک کے ذریعے سے کمیٹی کو بتایا کہ گرمیوں کی چھٹیاں رول تین کے آرڈر دو کے تحت دی جاتی ہیں۔

سپریم کورٹ میں ریکارڈ زیرالتوا مقدمات

   نظامِ انصاف کی فراہمی میں دنیا کے 142 ملکوں میں پاکستان کا درجہ 130 واں ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس وقت تک کل 58479 مقدمات زیر التوا ہیں جہاں تقریباً 3ماہ کی چھٹیوں کا نوٹیفیکیشن جاری ہو چکا ہے۔

لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دسمبر 2023 تک ملک بھر کی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی تعداد  22 لاکھ 60 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ  گزشتہ برس یہ تعداد 18 لاکھ سے زائد تھی۔

ستمبر کے دوسرے ہفتے میں عدالتی سال کا آغاز

سپریم کورٹ رولز 1980 کے  تحت پاکستان میں نئے عدالتی سال کا آغاز ستمبر کے دوسرے ہفتے کے پہلے سوموار سے ہوتا ہے۔ اس سے قبل گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ گو کہ اس بار چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی جانب سے سپریم کورٹ کی چھٹیاں تین ماہ سے کم کر کے دو ماہ کر دی گئیں۔ چھٹیوں کا آغاز 15 جون کی بجائے 15 جولائی سے کیا گیا جو 10 ستمبر تک جاری رہیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر کی ہائیکورٹس اور ماتحت عدلیہ میں بھی دوماہ کی چھٹیاں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ عدالتی چھٹیاں ہوتی کیوں ہیں؟

مزدور سال کے 365 دن کام کرے، عدالتوں میں چھٹیاں کیوں؟

ایک ایسا ملک جس کا نظام انصاف تنزلی کا مرثیہ ہے اور جہاں مزدور سردی گرمی آندھی طوفان کی پرواہ کیے بغیر سال کے 365 دن کام کرتے ہیں۔ اس وقت سپریم کورٹ اور تمام ہائیکورٹس میں گرمیوں کی چھٹیاں چل رہی ہیں۔

ہمارے نظامِ انصاف کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اس میں افرادی قوت کی شدید کمی ہے۔ خاص طور پر جج صاحبان کی اور عدالتی مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے زیادہ ججوں کی تقرری ضروری ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب زندگی کے باقی تمام شعبہ جات میں سال بھر کام جاری رہتا ہے۔ مزدور، کسان، تاجر، کارخانے فیکٹریاں سب پورا سال کام کر کے ریاست کو ٹیکسوں کی شکل میں پیسہ دیتے ہیں تو ایسے میں سرکاری نظام کا ایک حصہ یعنی نظام انصاف جس کی پہلے ہی حالت بہت خراب ہے وہ چھٹیوں پر کیوں چلا جاتا ہے؟

عدالتی چھٹیوں کا آئین اور قانون میں کہیں ذکر نہیں؛ جی ایم چوہدری ایڈووکیٹ

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل جی ایم چوہدری نے بتایا کہ گرمیوں کی چھٹیوں کا ذکر آئین میں ہے نہ قانون میں۔ ان کا ذکر صرف سپریم کورٹ رولز 1980 میں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 6 سال پہلے انہوں نے سپریم کورٹ میں ان چھٹیوں کے خلاف درخواست دائر کی تھی جسے تکنیکی بنیادوں پر یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ یہ مفادِ عامہ کا مقدمہ نہیں۔

اس بارے میں جی ایم چوہدری ایڈووکیٹ نے بتایا کہ آئین میں ان چھٹیوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں، نہ ہی اس بارے میں کوئی قانون ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ رولز کے مطابق چیف جسٹس صاحبان ان چھٹیوں کا اعلان کرتے ہیں۔ اگر یہ چھٹیاں اتنی ہی ضروری ہیں تو پھر تمام سرکاری محکموں کو کیوں نہیں دی جاتیں، یہ چھٹیاں صرف ججوں کے لیے مخصوص کرنا امتیازی سلوک ہے۔

عدالتی چھٹیوں کی تاریخ کیا ہے؟

اس حوالے سے ایڈووکیٹ جی ایم چوہدری نے بتایا کہ برصغیر میں سارے جج انگریز ہوتے تھے۔ 1890 میں سید امیر علی پہلے مسلمان تھے جو بنگال ہائیکورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ اس زمانے میں چونکہ ججوں کی اکثریت انگلستان سے آتی تھی اس لیے انہیں 3 مہینے کی چھٹیاں دی جاتی تھیں، جن میں ایک مہینہ وہ بحری جہاز کے ذریعے سفر کر کے انگلستان پہنچتے، ایک مہینہ بچوں کے ساتھ گزار کر ایک مہینے میں واپس ہندوستان آتے۔ اس کے علاوہ انگلستان میں سرکاری چھٹیوں کا رواج اس لیے تھا کیونکہ وہاں شدید برف باری کی وجہ سے سارا نظام زندگی متاثر ہو جاتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ برطانوی حکام گرمی برداشت نہیں کر سکتے تھے اس لیے انہوں نے گرمائی دارالحکومت شملہ اور مری میں رکھے تھے۔ انگریز دور میں پنجاب کے گورنر کا دارالحکومت مری ہوتا تھا۔

آج کل کی صورت حال میں ہمارے پاس بہترین ائر کنڈیشنڈ عدالتیں ہیں جنہیں گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم رکھنے کا پورا انتظام ہوتا ہے، ایسے میں چھٹیوں کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔

ایڈووکیٹ جی ایم چوہدری نے بتایا کہ گرمیوں کی چھٹیوں کے علاوہ سردیوں میں 15دن کی عدالتی چھٹیاں بھی ہوتی ہیں حالانکہ 25 کروڑ لوگوں کے ملک میں انسانی حقوق سے متعلق سنگین نوعیت کے مقدمات ہوتے ہیں جن پر عدالتوں کو توجہ دینی چاہیے۔

60 ہزار زیر التواء مقدمات کو دیکھا جائے تو چھٹیاں مناسب نہیں لگتیں؛ کامران مرتضٰی

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر، سینیٹر کامران مرتضٰی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گرمیوں کے موسم میں عدالتی چھٹیوں کا تصور بنیادی طور پر انگریز کا دیا ہوا ہے، کیونکہ ان چھٹیوں میں انہوں نے اپنے ملک جانا ہوتا تھا۔ لیکن اس بارے میں دو قسم کی آراء ہیں۔ ایک یہ کہ عدالتی کام ایک انٹلیکچوئل کام ہے اور اس میں وقفے کی ضرورت ہے لیکن اگر ساٹھ ہزار زیرالتواء مقدمات کو دیکھا جائے تو چھٹیوں کا یہ تصور مناسب نہیں لگتا۔ کئی لوگ اپنی سزائیں پوری کر چکتے ہیں لیکن ان کے مقدمات کی سماعت کی باری نہیں آتی۔ کامران مرتضٰی نے کہا کہ میرے خیال سے سال میں کل تیس دن چھٹیوں کے لیے مقرر کر دینے چاہئیں تاکہ جو جج صاحبان چھٹی پہ جانا چاہیں وہ جا سکیں، بہرحال ہم انگریز تو نہیں ہیں نا۔

عدالتوں میں گرمیوں کی چھٹیاں انگریز دور کی روایت لیکن کام کو متاثر نہیں کرتیں: عمران شفیق ایڈووکیٹ

عمران شفیق ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ غلط تاثر ہے کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں سارے جج صاحبان چھٹیوں پر چلے جاتے ہیں اور عدالتیں بند ہو جاتی ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہوتا، بلکہ ارجنٹ نوعیت کے ضمانتوں اور جبس بے جا سے متعلق مقدمات کی سماعت جاری رہتی ہے۔ صرف روٹین کے مقدمات سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوتے۔ عمران شفیق نے کہا کہ ججوں کا کام ذہنی مشقت کا کام ہے۔ صبح آٹھ بجے سے لے کر سہ پہر چار بجے تک جج صاحبان مقدمات کی سماعت کرتے ہیں۔ اس کے بعد رات گیارہ، بارہ بجے تک وہ مقدمات اور فیصلے تحریر کرواتے ہیں۔ چھٹیوں کے دوران جج صاحبان کو ایسے فیصلے جن میں زیادہ تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے ان سے متعلق پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ عدالتوں میں گرمیوں کی چھٹیاں گو کہ انگریز دور کی روایت ہے اور ان چھٹیوں کے دوران جج حضرات اپنے اسٹیشنز پر واپس جایا کرتے تھے لیکن یہ کوئی خراب یا برا تصور نہیں ہے۔ بعض دوسرے ممالک جہاں کی مثالیں دی جاتی ہیں، مثلا امریکا کی سپریم کورٹ میں ایک سال میں صرف 80 کے قریب مقدمات ہی رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں کام کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ججز لوکل اور بین الاقوامی کانفرنسز میں شرکت کرتے ہیں، اس کے علاوہ جوڈیشل اکیڈمی میں تربیتی کورسز بھی ہوتے ہیں، ایسے میں میرا نہیں خیال کہ یہ چھٹیاں کسی بھی طرح سے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp