حالیہ بجٹ کے بعد مہنگائی کے طوفان نے موبائل انڈسٹری کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ عوام کو موبائل فون کی قیمتیں کم ہونے کی خبر کو سنے ابھی بمشکل ایک ماہ ہی گزرا ہوگا کہ مارکیٹ جانے والے صارفین خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟
موبائل فونز کی بڑھتی قیمتوں کے حوالے سے سینئر وائس چئیرمین موبائل فون ڈیلرز ایسوسی ایشن طہ مشتاق کہتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر ہر تین ماہ بات موبائل فونز کے نئے ماڈلز آنے پر قیمتیں کم ہو جاتی ہیں، لیکن پاکستان میں اس کے بالکل برعکس معاملہ ہے اور ہر پانچ ماہ بعد ٹیکس بڑھ جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : موبائل فونز کی درآمدات میں نمایاں اضافہ
طہ مشتاق کے مطابق پاکستان میں پی ٹی اے کی قیمت ہر چند ماہ بعد بڑھ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے ڈالر کی وجہ سے ریٹ بڑھا دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی 2024 کے بجٹ میں تمام الیکٹرانک آئٹمز پر 18 فیصد ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔ جو موبائل 10 ہزار روپے کا تھا وہ 18 ہزار روپے میں لینا پڑے گا۔ کاروبار کا یہ حال ہے کہ مارکیٹ میں اس وقت سناٹا ہے۔
موبائل مارکیٹ میں برسوں سے کاروبار کرنے والے تاجر اسرار جہانگیری کہتے ہیں کہ 50 ہزار روپے والا موبائل فون 60 ہزار روپے، 1 لاکھ والا ڈیڑھ لاکھ تک جا چکا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور کاروبار دن بدن ختم ہوتا جا رہا ہے۔ کے الیکٹرک سمیت تمام ادارے ٹیکس لیتے جا رہے ہیں۔ فائدہ صرف انہی کا ہے جو ٹیکس وصول کر رہے ہیں جس کا فائدہ عام عوام کو بالکل نہیں مل رہا۔
یہ بھی پڑھیں : مہنگائی کے دور میں سستے موبائل فون اور ٹیبلٹ کہاں سے ملتے ہیں؟
تاجر عبید الرحمن کا کہنا ہے کہ حکومت کا مسلئہ یہ ہے کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے پوچھتی نہیں ہے۔ موبائل کا کام اچھا ہو گیا تھا، اب ٹیکس لگا دیا وہ بھی ہم سے پوچھے بنا جبکہ ہم اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ جہاں پوری دنیا میں ٹیکنالوجی سستی کی جا رہی ہے وہیں ہمارے ہاں مہنگی کی جا رہی ہے۔