تحریک عدم اعتماد کے وقت اسلام آباد ہائیکورٹ کیوں کھلی؟ جسٹس اطہر من اللہ نے بتا دیا

بدھ 24 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے حال ہی میں امریکا میں نیویارک سٹی بار ایسوسی ایشن کے ارکان سے خطاب کے دوران جسٹس من اللہ نے پاکستان کے عدالتی چیلنجز اور سیاسی مداخلتوں پر اظہار خیال کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:آئین توڑنے والے آمروں نے ایک دن بھی جیل میں نہیں گزارا، جسٹس اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ

ہائی پروفائل کیسز اور پاکستان میں سیاسی معاملات میں عدلیہ کے کردار کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب ملک میں مارشل لا کا خطرہ در پیش ہو عدالتیں کھلی ہونی چاہییں۔

تاسف کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کاش عدالتیں 5 جولائی کو کھلی ہوتیں جب جنرل ضیاءالحق ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹارہے تھے اسی طرح انہیں 12 اکتوبر کو بھی کھلا ہونا چاہییے تھا جب جنرل پرویز مشرف نے ایک منتخب وزیراعظم کو معزول کیا۔

مزید پڑھیں: ہم کالی بھیڑیں نہیں کالی بھڑیں ہیں، جسٹس اطہر من اللہ

سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور کے آخری دنوں کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اس وقت اے آروائی سمیت دیگرمیڈیا نے ایسی صورتحال کی منظر کشی کررکھی تھی کہ جس میں مارشل لا کا نفاذ بس ہوا ہی چاہتا تھا۔

’اگر کسی نے اس وقت تک وزیر اعظم عمران خان کو کسی غیر آئینی طریقہ سے ہٹانے کی کوشش کی ہوتی تو پھریہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا امتحان ہوتا کہ وہ آئین کو بالادست بنانے کے قابل ہے کہ نہیں۔‘

مزید پڑھیں: ہائیکورٹ ججوں کے خط پر تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل، وکلا کمیونٹی کا خیرمقدم

خطاب کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 جج جنہوں نے سپریم کورٹ کوعدالتی امورمیں ایجنسیز کی مداخلت کے حوالے سے خط لکھا تھا ان میں سے 5 جج وہ ہیں جن کی نشاندہی اور تعیناتی کی سفارش انہوں نے بحیثیت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ خود کی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp