یہ 19 اگست 2021 عاشورہ کا دن تھا جب 9 سالہ پریا کماری اغوا ہوئی۔ اپنے اغوا سے عین قبل وہ خوشی خوشی اپنے والد کی مدد کر رہی تھی جو ہر سال محرم میں سکھر کے قریب سنگر کے چھوٹے سے قصبے میں سبیل لگاتا تھا۔ اس بات کو 3 سال گزر چکے ہیں اور پریا کماری اب بھی لاپتہ ہے۔ عورت فاؤنڈیشن کے مطابق ہر سال کم از کم ایک ہزار غیر مسلم لڑکیوں کو اغوا کر کے ان کا جبری طور پر مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے۔
پریا کماری کا کیس گڈی کولھی کی یاد دلاتا ہے۔ اس 14 سالہ ہندو بچی کو تھرپارکر سے اغوا کرکے ھرپار لایا گیا تھا۔ مذہب کی تبدیلی کے بعد اس کی شادی 50 سالہ مرد رستم جونیجو سے کروائی گئی اور اس بچی کو زنجیروں کے ساتھ گھر میں قید رکھا گیا۔ ایک سال تک نہ پولیس کو کوئی شواہد ملے، نہ ہی کسی اور کو بچی کی چیخ و پکار سنائی دی جبکہ وہ معصوم جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنتی رہی۔ پھر ایک دن اس بچی کو موقع ملا اور وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق وہ حاملہ تھی اور 30 کلومیٹر کی دوڑ لگانے کی وجہ سے حمل ضائع ہو گیا تھا۔ ذرا سوچیں، اس چھوٹی سی جان پر کیا قیامت گزری ہوگی؟ کیا ہم اور آپ اس خوف اور اذیت کا اندازہ بھی کر سکتے ہیں؟ یہ واقعات ہمارے معاشرے میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور ان کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
سندھ حکومت نے دو تین بار جبری تبدیلی مذہب اور جبری شادیوں کو غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ اس بل کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچے اپنے والدین کی اجازت کے بغیر مذہب تبدیل نہیں کر سکیں گے اور جبری مذہب تبدیل کرانے والوں کو قانون کے تحت سزا دی جائے گی۔ تاہم، قدامت پسند مسلم گروہوں کی سخت مخالفت کے باعث دونوں بار یہ قانون منظور نہیں ہو سکا۔
کیا ملکی پارلیمنٹ کمیٹی، جس نے جبری تبدیلی مذہب کے بل کو مسترد کیا ہے، اس سوال کا جواب دے سکتی ہے کہ اسلام کی سچائی صرف کم عمر لڑکیوں پر ہی کیوں واضح ہورہی ہے؟ محبت یا شادی کے لیے ہر بار غیر مسلم کو ہی کیوں اپنا مذہب بدلنا پڑتا ہے؟ غیر مسلموں میں بھی ایک عورت پر ہی کیوں دین کی حقیقت کھل رہی ہے؟ یہ سوالات نہ صرف مذہبی آزادی بلکہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے حوالے سے بھی ہمارے معاشرے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔
ابھی کچھ دن پہلے تین تلوار کراچی میں پریا کماری کی بازیابی کے لیے دھرنا دیا گیا۔ وہاں مظاہرین کا کہنا تھا کہ پولیس اس کیس کے بارے میں معلومات رکھتی ہے لیکن پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس دھرنے کو ختم کروانے کے لیے سندھ کے صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار کی تین تلوار پر آمد ہوئی اور ان کا کہنا تھا کہ پریا کماری کا کیس گمنام کیس تھا مگر سندھ پولیس نے اس میں امید پیدا کی اور بتایا کہ ’پریا کماری زندہ ہے، جس کے شواہد ملے ہیں۔ ‘
یہ بھی بتاتی چلوں کہ وزیر داخلہ سندھ نے پریا کماری کی بازیابی کے لیے 3 اپریل 2024 کو ایک جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔ اس جے آئی ٹی کو بچی کی بازیابی پر 3 ہفتوں میں رپورٹ دینا تھی، مگر تاحال وہ رپورٹ نہیں آئی۔
وزیر داخلہ کی بات میں کتنی سچائی ہے، اس کا پتہ نہیں، لیکن اگر ہے بھی تو پریا کماری اب تک بازیاب کیوں نہیں ہو پائی ہے؟ یا پولیس گڈی کولھی کی طرح بچی کے خود بھاگ نکلنے کا انتظار کرنا چاہتی ہے؟
جس ملک میں روزانہ کی بنیاد پر بچوں کے ساتھ پیش آنے والے جنسی زیادتی، تشدد کے واقعات پر بھی معاشرے میں کوئی حساسیت نہ پائی جاتی ہو، سوچیے وہاں اقلیتوں کی بچیوں اور عورتوں کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ اس معاشرے نے جہاں عورتوں اور بچوں کو کمزور کیا ہوا ہے، وہیں اقلیتوں کی بچیاں کمزور سے کمزور تر کردی گئیں ہیں۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے ہم ایسے معاشرے میں ہیں جہاں اقلیتوں، بچوں اور عورتوں کو کمزور سمجھ کر ان کے حقوق چھیننا اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔