سوات کی سیر یا خطرات کا سفر

اتوار 28 جولائی 2024
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آج کل سوات کی سیر کا خیال آتے ہی سیالکوٹ کے اس بدنصیب سیاح سلیمان قمر کا خیال آتا ہے جسے چند ہفتے قبل مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔ وہ اندوہ ناک واقعہ اپنی جگہ مگر کاروبار دنیا نہیں رُکتا۔ اچھے بُرے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ عدم بر داشت ہمارے معاشرے کا اجتماعی ناسور بن چُکا ہے۔

پچھلے برس بچوں کے ساتھ گلگت بلتستان میں ہنزہ، نلتر، استور، منی مرگ، دیو سائی، سکردو، شگر، خپلو، کچورہ اور دیگر مقامات کی جی بھر کر سیر کی۔ یوں لگتا ہے جیسے پچھلے ہفتے ہو کر آئے ہیں۔ ڈاکٹر احمر سہیل کے گلگت میں ہوتے ہوئے اور دیگر مقامی دوستوں کی وجہ سے گلگت بلتستان مجھے اپنا دوسرا گھر لگتا ہے۔

دوسری دفعہ 2017 میں بچوں کے ساتھ خُنجراب تک گیا۔ تیسری مرتبہ ڈاکٹر حسیب وڑائچ کی وجہ سے پورے گلگت بلستان کا تفصیلی دورہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ جی بی گورنمنٹ کے ساتھ پروموشنل کام کر رہے تھے۔ اسی پراجیکٹ کے لیے احمر اور میں نے مل کر ایک ڈاکیومنٹری لکھی۔ جب شوٹنگ کا وقت آیا تو ڈاکٹر حسیب وڑائچ نے مجھے بھی اپنی ٹیم کے ساتھ گلگت بلتستان جانے کی دعوت دی۔

اپریل 2020 ، یہ وہ وقت تھا جب کرونا وائرس اور اس کا خوف نیا نیا پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ گلگت میں ایک نوجوان ڈاکٹر کرونا کی نذر ہو چکا تھا۔ ملک بھر میں لاک ڈاؤن چل رہا تھا، چوں کہ ہماری ٹیم گورنمنٹ کے ساتھ کام کر رہی تھی اس لیے ہمیں کسی خاص مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ ہماری ٹیم کا ہر طرح سے خیال رکھا گیا۔ گلگت سے احمر بسراء صاحب کی میزبانی کے بعد سکردو کی طرف سفر شروع ہوا۔ احمر اور میں پہلی دفعہ سکردو تب ہی گئے۔ 2022 میں برادرم اکمل خان نے جولائی میں ہونے والے شندور پولو میلا دیکھنے کے بعد مہو ڈنڈ تک 4 روزہ ٹریکنگ ٹوؤر کا اعلان کیا تو میں بھی اس کا حصہ تھا۔

2016 میں ایک سابقہ دوست کی راہ نمائی میں پہلی دفعہ اپنے اپنے بچوں کے ہم راہ سوات گئے۔ مہو ڈنڈ جھیل پہلی دفعہ دیکھا تو جنت کا گماں ہوا۔ چاروں اور قدرت نے خوب صورتی بکھیر رکھی تھی۔ 2020  میں رات 9 بجے کے قریب طویل اور ایڈونچر سے بھرپور ٹریک مکمل کر کے مہو ڈنڈ پہنچے تو رات کے اندھیرے میں خوب صورتی کیا دیکھتے ویسے بھی گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ رات کو ہی کچھ دوستوں کے ہم راہ اسلام آباد جانے کے لیے کالام آ کر پڑاؤ کیا۔

گزشتہ دونوں طویل ویک اینڈ تھا تو بچو ں کے ساتھ سوات جانے کا پروگرام بن گیا۔ حالانکہ ذہن کے کسی نہاں خانے میں مدین، سوات میں سلمان قمر مرحوم کی بے رحمانہ موت کا خیال تھا، د وسرا جہاں انٹرنیٹ یقینی نہ ہو بچے وہاں جانے سے کتراتے ہیں۔ سوات جانے کا پروگرام طے ہوگیا تو خیال تھا کہ برادرم رانا اکمل خان کے مہو ڈنڈ جھیل کنارے بنائے ہوئے اوپن سکائی گلیمز میں سیدھے جا کر رات بسر کریں گے مگر اسلام آباد جیپ کلب کے متحرک رُکن برادرم سید عمران حیدر نے کہا کہ ایسا نہ کریں، وہاں زیادہ ٹھنڈ ہوگی لہذا بحرین یا کالام ایک رات پڑاؤ کر لیں تاکہ موسم سے جسمانی مطابقت ہو جائےاور تھکاوٹ بھی نہ ہو۔ بہرحال 13 جولائی صُبح سویرے سوات کے لیے نکل پڑے، یا د رہے سوات کسی شہر کا نام نہیں بلکہ پوری وادی سوات کہلاتی ہے۔

دوپہر سے پہلے چق درہ پہنچ گئے اور وہی جا کر ناشتہ کیا۔ ناشتہ کر نے کے بعد وقت دیکھا تو شام ہونے میں کافی دیر تھی لہذا وادیِ سوات کے مرکزی شہر منگورہ کا رُخ کر لیا۔

شہر سے کافی باہر جا کر والیِ سوات کا سفید محل آتا ہے۔ وہاں پہنچے ایک دوکان دار کی مدد سے پارکنگ کی تنگ سی جگہ کسی طرح گاڑی پارک کی۔ یہ محل اچھا ہے مگر کوئی شاہانہ جاہ و جلال والی عمارت نہیں۔ اس محل میں محترمہ فاطمہ جناح، ملکہ برطانیہ اور صدر ایوب بھی جا چُکے ہیں۔ صدر ایوب نے تو والیِ سوات کے بیٹے کو بیٹی کا رشتہ بھی دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج میاں گُل حسن اورنگ زیب جنرل ایوب کے نواسے اور آخری والیِ سوات میاں گُل جہاں زیب کے پوتے ہیں۔ وہاں سے نکلے تو شام 5 بجے کے قریب کالام پہنچ گئے۔ نور الھدیٰ شاہین جو کا لام میں ہی ٹورازم کا کام کرتے ہیں، ہمارے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں۔ رانا اکمل خان کے میں گلیمز کو بھی وہی دیکھتے ہیں۔ انھوں نے ایک ریزارٹ Rock Water، شب بسری کا بندو بست کیا ہوا تھا۔

اگلی صُبح ناشتہ کیا تو نور ایک اچھی حالت والی جیپ ڈرائیور سمیت آگیا۔ شام سے پہلے مہو ڈنڈ پہنچ گئے۔ چند برس قبل جب پہلی دفعہ مہو ڈنڈ جاتے ہوئے جھیل نظر آئی تھی تو طبعیت کھِل اُٹھی تھی۔ جب قریب گئے اور تین چار گھنٹے بتائے تو ایک گونہ تفریح کا احساس ہوا تھا او لگا تھا یہ واقعی کوئی جنت کا ٹُکڑا ہے۔

اس دفعہ وہاں گلیمز میں رات بسر کی اور ظاہر ہے یہ بہت اچھا تجربہ تھا کہ بہتے صاف شفاف پانی کے ساتھ آپ کا ٹھکانہ ہو۔ موسم انتہائی خوش گوار تھا۔ کہاں اسلام آباد کا حبس زدہ موسم اور کہاں مہو ڈنڈ جھیل کنارے رات کا بسرام جہاں رضایاں لے کر سونا پڑا۔

لیکن اب وہاں خیموں کا اک جہان آباد ہے اور لگتا ہی نہیں یہ وہ جھیل ہے جو چند پرس قبل تھی۔ شام کو کشتی رانی کی تو کشتی بان نے کہا کہ اگر اسی طرح رش بڑھتا رہا تو چند کلومیٹر آگے مہو ڈنڈ کی جگہ ڈونچار آبشار لے لی گی اور یہاں کالام آ جائے گا۔ سیاحوں کی طرف سے وہ اپنا گند نہ سنھبالنے کا گلہ بھی کر رہا تھا۔

نور الھدیٰ شاہین سے جب مدین واقعہ میں سلمان قمر کی ہلاکت کے حوالے سے پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ توہین کا تک کوئی ثبوت نہیں ملا۔ بس ہمارے ہاں بھی لوگ پورے ملک کی طرح مذہب کے معاملے میں بہت جذباتی ہیں۔

واپسی پر جیپ ڈرائیور زبیر سے پوچھا کہ یہاں تو طالبان والا کوئی ماحول نظر نہیں آرہا پھر یہ کہاں سے آ جاتے ہیں؟

زبیر نے کہا، ‘جب طاقت ور لوگ آتے ہیں تو طالبان بھی آ جاتے ہیں، جب وہ جاتے ہیں تو طالبان بھی ساتھ ہی چلے جاتے ہیں۔’

کالام شہر اور آس پاس رہنے والے اکثر لوگ گو کہ نسلاً پٹھان ہی ہیں مگر گاؤری یا کوہستانی کہلاتے ہیں اور ان کی زبانوں کے بھی یہی نام ہیں۔ بحرین او ارد گرد کافی تعداد میں تؤر ولی لوگ رہتے ہیں جو یہی زبان بولتے ہیں۔ تؤر ولی زبان و ثقافت کے ماہر زبیر تؤر ولی نے ایک دفعہ لاہور میں مقالہ پڑھتے ہوئے بتایا تھا کہ تؤر ولی زبان و ثقافت پشتون کلچر سے مختلف ہے۔

مدین پہنچا تو گاڑی کھڑی کرکے ایک راہ گیر سے اس ہوٹل کا پوچھا جہاں بد قسمت سلمان قمر حادثے کا شکار ہوا تھا۔ اس نے دور ایک بلڈنگ کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ ویٹر اور سیاح کے بیچ میں ہی کوئی بات ہوئی جس کو کسی کو کوئی علم نہیں۔ باہر نکل کر اسی ویٹر نے توہین مذہب کا الزام لگا دیا۔ باقی جو کچھ ہوا اس کا سب کو علم ہے۔

میں نے خاموشی سے اپنا دھیان گھڑی کی طرف اور رُخ اسلام آباد کو کر لیا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp