شہرِ نظم اُداس ہے

پیر 29 جولائی 2024
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پروفیسرآفتاب اقبال شمیم نے کہا تھا کہ ’راولپنڈی اسلام آباد میں بہت عمدہ نظم کہنے والے کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ سب نام تو مجھے یاد نہیں آسکتے تاہم فوری طور پر نصیر احمد ناصر، انوار فطرت، علی محمد فرشی، پروین طاہر اور وحید احمد کے نام ذہن میں آئے ہیں۔ اس کے بعد سعید احمد، ارشد معراج، روش ندیم اور کتنے ہی دوسرے نوجوان اس سلسلے سے وابستہ ہیں۔ بلاشبہ یہ شہرِ نظم ہے۔‘

پروفیسرآفتاب اقبال شمیم 26 جولائی 2024 کو شہرِ نظم کو اداس کر گئے۔ دنیائے نظم میں وہ اکیلے ہی بہت سوں سے زیادہ تھے اور بہت سے مل کر بھی اُن ایک سے کم ہیں۔

آفتاب اقبال شمیم 16 فروری 1933 کو جہلم میں پیدا ہوئے، وہیں سے میٹرک پاس کیا، پھر 53-1952 میں اصغر مال کالج راولپنڈی میں تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ یہاں کمرہ امتحان میں لکھا مضمون ’اقبال کا مرد مومن‘ ان کے استاد ڈاکٹر صفدر حسین کو پسند آیا تو انہوں نے اخبار میں شائع کرا دیا۔ سال دوم میں تھے جب کالج کے مجلے’کوہسار‘کے پہلے طالبِ علم مدیر کا اعزاز حاصل کیا۔

7 ستمبر 2012: آفتاب اقبال شمیم کی صدارت میں ہوئے نظم مشاعرہ کے بعد شرکا کا گروپ فوٹو

کالج پروفیسر رفیق محمود اور پروفیسر اکرام الحق نے ادبی رجحان کے پیشِ نظر انہیں دستِ صبا (فیض احمد فیض) اور ماورا (ن۔م۔راشد) عنایت کیں، جن کی بدولت مختلف اور نئے شعری تجربے سے روشناس ہوئے۔ آفتاب اقبال شمیم کہتے تھے ’ان کتابوں نے اوائلِ عمر میں ہی جدید اور باشعور عالمی شہری بنادیا اور میں پوری سنجیدگی کے ساتھ نظم لکھنے کی طرف مائل ہوگیا۔‘

پروفیسر آفتاب اقبال شمیم تمام عمر درس و تدریس سے منسلک رہے۔ 1995 میں گورڈن کالج راولپنڈی سے قریباً 4 عشرے انگریزی پڑھانے کے بعد ریٹائر ہوئے۔ 12 برس چین کی پیکنگ (بیجنگ) یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے بھی منسلک رہے، کئی نامور چینی شخصیات نے ان سے اردو سیکھی۔

مزیدپڑھیں:آفتابِ اَدب ۔ ڈاکٹر وزیر آغا

دلچسپ بات یہ ہے کہ آفتاب اقبال شمیم کسی فرد واحد کا نام نہیں بلکہ یہ ان کے دوستوں، اقبال کوثر (4اپریل1932 تا29جنوری2013) اور احمد شمیم (31مارچ1930تا7اگست1982) کے ناموں کا مجموعہ ہے۔ طویل نظم ’شجرستانِ ہجر کا مسافر‘ احمد شمیم کی موت پر لکھی تھی۔ دوستوں نے نظم کی تعریف کی تو انہوں نے کہا تھا ’یہ نظم میں نے نہیں لکھی بلکہ خود احمد شمیم نے لکھی ہے، میں اگر پہلے مرجاتا تو یہی نظم وہ میری موت پر لکھتا۔‘

آفتاب اقبال شمیم کے تین شعری مجموعوں کے سرورق کا عکس

نظموں کے مجموعوں میں فردا نژاد، زید سے مکالمہ، گم سمندر، میں نظم لکھتا ہوں، شامل ہیں۔ سایہ نورد ان کی غزلوں کا انتخاب جبکہ ’نا دریافتہ‘ کلیات ہے، جس میں مجموعۂ نظم ’ممنوعہ مسافتیں‘ بھی شامل ہے۔ آفتاب اقبال شمیم کہتے تھے ’جب شاعری شروع کی، اُس وقت سرمایہ دارانہ نظام تھا اور اب شاعری ’ختم‘ کررہا ہوں تو آج بھی وہی نظام ہے۔ نظام میں تبدیلی کا خواب دیکھا اور وہی شاعری میں بیان کیا، میں سمجھتا ہوں کہ دیکھے جانے والے خواب کی تعبیر ممکن نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میں اگلے جنم میں بھی آؤں گا اور ’زید سے مکالمہ‘ جاری رہے گا۔‘

’یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی ۔ ۔ ۔ جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا‘ (آفتاب اقبال شمیم)

ڈاکٹر وزیر آغا کی دوسری برسی کے موقع پر 7 ستمبر 2012 کو ادبی تنظیم ’اکناف‘ کے زیر اہتمام اسلام آباد میں نظم کا پہلا اور شاید آخری مشاعرہ ’بیادِ ڈاکٹر وزیر آغا‘ منعقد ہوا تھا۔ آغا صاحب کے شایانِ شان مشاعرے کی صدارت کا اعزاز پروفیسر آفتاب اقبال شمیم کے حصے میں آیا۔

7 ستمبر 2012: بیادِ ڈاکٹر وزیرآغا نظم مشاعرے کے صدر آفتاب اقبال شمیم اپنا کلام پیش کر رہے ہیں

اس کا پس منظر یہ تھا کہ اردو کے تاریخ ساز مجلے ’ادبی دنیا‘ میں آفتاب اقبال شمیم کی پہلی نظم ’ستمبر کا شہر‘ کی اشاعت پر ڈاکٹر وزیر آغا نے آفتاب اقبال شمیم کے نام خط میں لکھا تھا کہ ’بہت سے اہم شاعر جہاں اپنے ادبی سفر کا اختتام کرتے ہیں آفتاب اقبال شمیم نے وہاں سے آغاز کیا ہے۔‘

مزید پڑھیں:جب کہانی ’عبداللہ حسین‘ کے گلے پڑ گئی

مشاعرہ منتظمین ہونے کی بدولت پروفیسر آفتاب اقبال شمیم کی آمد اور روانگی تک ان کی قربت اور گفتگو سے فیض حاصل کیا۔ ادبی تنظیم ’اکناف‘کے روحِ رواں، سینیئر صحافی اور میرے شاعر دوست کاشف رحمان کاشف نے نظم مشاعرہ کی نظامت کے فرائض ادا کیے تھے۔ ’وی نیوز‘نے شہرِ نظم کے سرخیل آفتاب اقبال شمیم کی رحلت پر شہرِ نظم کے معروف نظم نگاروں سے گفتگو کی ہے:

7 ستمبر 2012: بیادِ ڈاکٹر وزیرآغا نظم مشاعرے کے صدر آفتاب اقبال شمیم اور مشکورعلی

آفتاب اقبال شمیم عہد حاضر کا سب سے بڑا اور انتہائی معتبر نظم نگار ہے، رانا سعید دوشی

عہد موجود میں اردو نظم کا سب سے اہم اور قابل تقلید نام آفتاب اقبال شمیم ہے۔آپ کی نظم کا خاص اور منفرد اسلوب آج کے نظم نگاروں کے لیے فنی اور فکری سمتیں متعین کرنے میں قطب نما کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کی نظمیں اپنے مضامین کے حوالے سے آپ کو ایک اعلیٰ نظم نگار اور معاشرے کے انتہائی ذمہ دار تخلیق کار کے طور پر نہ صرف اعزاز کے ساتھ قبول کرتی ہے بلکہ آپ پر بجا طور پر فخر کرتی ہے۔

7 ستمبر 2012: رانا سعید دوشی اپنی نظم سنا رہے ہیں

میں ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آفتاب اقبال شمیم عہد حاضر کا سب سے بڑا اور انتہائی معتبر نظم نگار ہے۔ عہدِ آئندہ میں بھی جب کبھی معتبر نظم کے حوالے سے بات ہو گی تو آپ کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہو سکے گی۔

آفتاب اقبال شمیم نے روشن خیالی، بلند آدرش اور جراتِ اظہار سے روشناس کروایا، پروین طاہر

آفتاب اقبال شمیم وہ نمایاں شاعر ہیں جنہوں غزل کے کلیشے مضامین سے احتراز کرتے ہوئے اپنے باطنی و خارجی اظہار کے لیے آزاد نظم کا انتخاب کیا۔ دنیا کے بدلتے ہوئے تناظر کو دیکھ کر انہیں سمجھ آ چکی تھی کہ پیچیدہ سیاسی و سماجی حالات کے ساتھ صرف نظم ہی ہم آہنگ ہو سکتی ہے، کیونکہ اس میں اپنی بات کو مکمل طور پر بیان کرنے کی وہ گنجائش موجود ہے جسے غزل کے محض ایک شعر میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

7 ستمبر 2012: محترمہ پروین طاہر اپنی نظم سنا رہی ہیں

وہ روشن خیال فلسفیانہ سوچ رکھنے والے شاعر تھے ان کا مسئلہ صرف فن نہیں تھا، انسان اور معاشرہ دونوں ان کے لیے بہت اہمیت رکھتے تھے۔ آفتاب اقبال شہر نظم کے وہ باکمال شاعر ہیں جس نے نہ صرف راولپنڈی اسلام آباد میں نظم لکھنے والوں کے درمیان استعارہ سازی اور علامتی نظم کے رجحان کو ترویج دی بلکہ بحیثیت مجموعی سخن عالیہ میں گراں قدر اضافوں کا باعث بنے۔اُن کا انفراد صرف علامتی نظم ہی نہیں بلکہ وہ سکول آف تھاٹ ہے جس نے آفتاب اقبال کو روشن خیالی، بلند آدرش اور جراتِ اظہار سے روشناس کروایا۔

آہ! شہرِ نظم خاموش ہے، ڈاکٹر ارشد معراج

شہر نظم خاموش ہے۔ فضا سوگوار ہے۔ ہونا بھی چاہیے کہ عصر حاضر کی نظم کا بڑا ستون آفتاب اقبال شمیم اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کی نظمیں ہمیشہ رہیں گی آنے والے ان کی تفہیم کریں گے وہ زندہ جاوید رہیں گے۔

مزید پڑھیں:عینی آپا تھیں تو پاکستانی

ہمیشہ سرکار کی راہداریوں سے دور رہے۔ 2006 میں پرائڈ آف پرفارمنس ملا تو دوست مبارکباد دینے کے لیے حاضر ہوئے۔ آفتاب صاحب کی صورتحال عجیب تھی جیسے اس اعزاز کی ان کے لیے کوئی اہمیت ہی نہ ہو، واقعی ان کے کام کے سامنے اس اعزاز کی کوئی قیمت نہیں تھی۔

7 ستمبر 2012: ارشد معراج اپنی نظم سنا رہے ہیں

حوصلہ افزائی، جونیئرز سے محبت، انسان دوستی ہمدردی کا جذبہ ان پر انتہا تھا ان سے ہمیشہ ہی کچھ سیکھنے کو ملا۔ وہ بنیادی طور پر ترقی پسند فکر سے وابستہ تھے لیکن اپنی شاعری میں متنوع شخص کے طور پر سامنے آئے۔ کہیں وجودی تو کہیں گہرے مارکسی۔ ان کی نظم بہت آگے کی نظم ہے اس کی گرہیں کھولنے والا ابھی تک میسر نہیں آیا۔

وقت اس عظیم شاعر کا نام آزاد نظم کے صفِ اول کے دو تین ناموں کے ساتھ درج کرچکا ہے، سعید احمد

آفتاب اقبال شمیم عہد ساز شاعر تھے۔ جدید اردو نظم میں انہوں نے فنی و فکری حوالوں سے وقیع اضافہ کیا۔ ان کی غزل بھی جدید اسلوب کی حامل ہے لیکن ان کی نظم تخلیقی سربلندی کا اعلیٰ ترین حوالہ ہے۔ ان کا یہی کارنامہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے اپنے پیشرو نظم نگاروں ن م راشد، میراں جی اور مجید امجد سے الگ شناخت قائم کی لیکن ان کی ہنر کاری کی انتہا یہ ہے کہ انہوں نے فن کے اعلیٰ معیارات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے عہد کے پیچیدہ مسائل کو تخلیقی اپچ کے ساتھ بیان کیا۔

7 ستمبر 2012: سعید احمد اپنی نظم سنا رہے ہیں

فکری سطح پر وہ ترقی پسند تحریک اور وجودی فکر سے متاثر نظر آتے ہیں۔ آفتاب اقبال شمیم کے تخلیقی سفر کا ایک اور اہم حوالہ ان کی طویل نظمیں ہیں۔ آزاد نظم کی تاریخ میں وہ تنہا شاعر ہیں جنہوں نے مقدار اور معیار ہو دو اعتبار سے کسی بھی دوسرے شاعر کے مقابلے میں اردو نظم کو زیادہ ثروت مند کیا۔ وہ نظم کا چوتھا بڑا ستون ہیں۔ لیکن افسوس کہ اکثر عظیم فنکاروں کی طرح وہ ناقدری زمانہ کا شکار رہے۔ شاید اسی بنا پر انہوں نے اپنے کلیات کا نام ’نا دریافتہ‘ رکھا۔

مزید پڑھیں:بنام مشتاق احمد یوسفی

ان کی شاعری مستقبل گیر اوصاف سے متصف ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا پر نہیں کیا جاسکتا۔ وقت اس عظیم شاعر کا نام آزاد نظم کے صفِ اول کے دو تین ناموں کے ساتھ درج کرچکا ہے، دیکھیے کب کوئی نقاد بنے بنائے چوکھٹوں سے نکل کر اس تختی کی نقاب کشائی کرتا ہے۔

آفتاب اقبال شمیم کی نظم ’خارجیت‘ اور ’داخلیت‘ کی مثبت اقدار کے فنی امتزاج سے متشکل ہے، علی محمد فرشی

آفتاب اقبال شمیم کی نظم ’خارجیت‘ اور ’داخلیت‘ کی مثبت اقدار کے فنی امتزاج سے متشکل ہے۔ اُس نے اجتماعی زندگی کو اپنی باطنی خرد افروز آنکھ سے دیکھا اور دردمند دل کے لہو سے سینچا پھر فن کی آنچ پر پخت کرنے کے بعد سپردِ صفحۂ قرطاس کیا۔

7 ستمبر 2012: علی محمد فرشی اپنی نظم سنا رہے ہیں

یوں اس کی فکرِ مثبت نعرۂ انقلاب کی بہ جائے ایسے احساس کا سانچ بن گیا جو فن کا خاصہ ہے۔ اس کا نظریۂ فن اس کی نظموں کے پہلے مجموعے ’فردا نژاد‘ سے لے کر کلیات ’نا دریافتہ‘ تک اس کی انفرادیت کو مستحکم کرتا دکھائی دیتا ہے۔

آفتاب اقبال شمیم !
اِس شہر میں نہ تمھارا اقبال بلند ہو سکتا ہے نہ آفتاب
کچرے کے ڈھیروں پر منڈلانے والے
شمیم کی شناخت کے دعوے دار ہیں
اور لعنت کی پوشاک پہننے والے اندھے
چادرِ بوسیدہ‘ کی نجابت کا شجرہ لکھنے پر مامور!

آفتاب اقبال شمیم اردو نظم کے نور افشاں ہراول دستے کے آخری شہسوار تھے، ڈاکٹر وحید احمد

زمین اور میں

پھر مجھے ماں نے پلو میں باندھی ہوئی
وقت کی ریزگاری کے
دو چار سکے تھما کر
عجب پیار سے تھپتھپاتے ہوئے یوں کہا
’جاؤ نا!
جا کے عمروں کے میلے سے ہو آؤ نا!
دیکھنا!
دور پچھم میں جب
شام کا جامنی بادلہ لہلہانے لگے
اولیں گرم بوسے کی خوشبو سے مہکی ہوئی
نیم پختہ گلی یاد آنے لگے
لوٹ آنا۔۔‘

آفتاب اقبال شمیم میر کارواں تھے نظم کے اس قافلے کے جس کا صدر مقام شہر نظم راولپنڈی اسلام آباد ہے اور جس کی شاخیں ساری دنیا میں اس اس جگہ پھیلی ہوئی ہیں جہاں جہاں اردو بولی جاتی ہے اور شعر و سخن کی خوشبو مہکتی ہے۔

مزید پڑھیں:‘بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی’

برق مقناطیسی شخصیات کم کم پائی جاتی ہیں۔ ایسی شخصیات جن کے اردگرد نور کا ہالہ اور پاکیزگی کا aura ہو۔ جن کا تخلیقی وفور ان کے چہرے پر دھوپ کی طرح پھیلا ہو اور بے نیازی دائمی مسکراہٹ بن کر کنج لب پر ہویدا ہو۔ آفتاب اقبال شمیم ایسی ہی شخصیت کے مالک تھے۔ سخن کی طبع زاد ودیعت جن کی آنکھوں سے تسلسل کے ساتھ electromagnetic waves کی صورت چھنتی اور دیکھنے والے کی آنکھیں خیرہ کرتی تھی۔ وہ تو غنیمت ہے کہ وہ چشمہ لگاتے تھے۔

گوشہ نشینی بھی ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ اس ہاؤ ہو کے دور میں جہاں خود ستائشی اور انجمن تحسین باہمی کے نقار خانے میں سوشل میڈیا کا طوطی گلا پھاڑ کر بولتا ہے، آئی نائن سیکٹر اسلام آباد کی ایک پرسکون گلی کے رمزوں بھرے گھر کے ایک کونے میں مرکوز اور مربوط سوچ کو قرطاس کی زینت بنانا آفتاب صاحب کا وہ احسان عظیم ہے، اردو ادب جس پر ہمیشہ نازاں رہے گا۔

7 ستمبر 2012: ڈاکٹر وحید احمد اپنی نظم سنا رہے ہیں

مجید امجد کے ہم عصر تھے اور ان کی روایات کے امین بھی تھے، سچے اور روشن سخن کی وہ روایات جو عہد ساز سخن ور اپنے پیروکاروں کی تقلید کے لیے عطا فرما جاتے ہیں۔ آفتاب اقبال شمیم اردو نظم کے نور افشاں ہراول دستے کے آخری شہسوار تھے۔ وہ دستہ کہ جس میں ایک وقت تصدق حسین خالد، ن م راشد، میرا جی، اخترالایمان، مجید امجد اور اختر حسین جعفری ان کے ہم رکاب ہوا کرتے تھے۔

مزید پڑھیں:100 برس کے مشیر کاظمی

میں آفتاب اقبال شمیم صاحب کا دیرینہ نیازمند اور پیروکار ہوں۔ ان کی خاک پا ہوں۔ وہ میرے پیش رو ہیں۔ میں نے ان سے بہت سیکھا ہے۔ ان کی بے پناہ محبتیں سمیٹی ہیں۔ 27 جولائی 2024 کو جب آفتاب اقبال شمیم صاحب کی الوداعی نماز آئی نائن سیکٹر اسلام آباد کی مسجد میں ادا کر رہا تھا تو وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا جب کچھ عرصہ پہلے اسی مسجد میں ان کی اہلیہ کی نماز جنازہ ادا کی تھی۔ مسجد کے کونے میں ایک کار کی عقبی نشست پر آفتاب اقبال شمیم اور توصیف تبسم اداس بیٹھے تھے۔ میں نے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ دونوں کے پاؤں پر اپنا ایک ایک ہاتھ رکھا تو دونوں نے میرے سر پر اپنا ایک ایک لرزتا ہاتھ رکھ دیا۔

7 ستمبر 2012: بیادِ ڈاکٹر وزیرآغا نظم مشاعرے کے صدر آفتاب اقبال شمیم اور مشکورعلی

آفتاب اقبال شمیم مکمل شاعر تھے۔ جذب کی کیفیت میں لکھتے تھے۔ اسی لئے سخن کی muses ان پر مہربان تھیں۔ وہ دنیائے ادب کو شعر و سخن بالخصوص نظم کا وہ خزانہ عطا فرما گئے ہیں جو جاودانی ہے۔ اک چادر بوسیدہ کو دوش پر رکھنے والا یہ شاعر بلاشبہ دولت دنیا کو اپنے پاپوش پر رکھتا تھا۔ اس کی اپنی شخصیت اس کی ہمزاد تھی۔ وہ جب ’زید سے مکالمہ‘ کرتا تو دراصل خود کلامی کرتا تھا۔ وہ خود سے ہی سوال کرتا تھا کہ وہ کون ہے؟ اس سوال کا جواب ایک بھرپور وجودی خود ہی دے سکتا ہے، ازلوں کی حیرانیاں بھلا اس کا کیا جواب دیں گی؟

میں کون ہوں ازلوں کی حیرانیاں کیا بولیں
اک قرض ہمیشہ کا میں گوش پہ رکھتا ہوں
جو قرض کی مے پی کر تسخیر سخن کر لے
ایماں اسی دلی کے مے نوش پہ رکھتا ہوں

آفتاب اقبال شمیم اردو نظم کی تاریخ کا طویل ترین باب ہیں، نصیر احمد ناصر

آفتاب اقبال شمیم اردو نظم کی تاریخ کا طویل ترین باب ہیں۔ ان کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ ان کے ہاں آخر تک تخلیقی تھکن کے آثار نہیں تھے۔ وہ اپنی عمر کی 8 دہائیوں کے بعد بھی اتنے ہی تازہ کار تھے جتنے اپنی پہلی نظم میں تھے۔ ورنہ ان کی عمر تک آتے آتے اکثر شاعر یا تو تخلیقی طور پر غیر فعال ہو جاتے ہیں یا معاصر شاعری سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتے اور اپنے آپ کو دہرانے لگتے ہیں۔

مزیدپڑھیں:منٹو کا واحد پنجابی افسانہ اور احمد ندیم قاسمی

آفتاب صاحب کا شمار ترقی پسندوں میں ہوتا تھا۔ تھا اس لیے کہ کسی بھی خالص اور روحِ عصر کے متقابل شاعر کے لیے ترقی پسندی کی روایتی اصطلاح اب بے معنی ہوچکی ہے۔ جس طرح سچا تخلیق کار زبان کے تابع نہیں ہوتا بلکہ زبان اس کے تابع ہوتی ہے اسی طرح وہ نظریے کا بھی تابع نہیں ہوتا بلکہ نظریہ اس کے تابع ہوتا ہے۔ آفتاب صاحب کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔ ان کی شاعری آگے نکل گئی ہے اور نظریہ پیچھے رہ گیا ہے۔ انہوں نے کبھی نظریے کو شاعری پر حاوی نہیں ہونے دیا۔

7 ستمبر 2012: نصیر احمد ناصر اپنی نظم سنا رہے ہیں، سٹیج پر کاشف رحمان کاشف، ڈاکٹر احسان اکبر اور پروفیسر آفتاب اقبال شمیم براجمان ہیں۔

ہاں، ہر اچھے تخلیق کار کی طرح نظریہ ان کے شعری فکری نطام کے بطنِ بطون میں موجود اور کارفرما ضرور رہا ہے۔ کیونکہ زندگی بذاتِ خود ایک نظریاتی حقیقت ہے۔ آفتاب صاحب کی بیشتر نظمیں داستانِ زیست کے کسی نہ کسی مکمل کردار کی عکاس ہیں۔ یہ وصف بہت کم شاعروں میں ہے۔ اب یہ نقادوں کا کام ہے کہ وہ ان کی نظموں کے شعری، معنوی، فکری، لسانیاتی اور فنی محاسن دریافت کریں۔

مجھے تم کل اِسی رستے پہ اُس کے ساتھ دیکھو گے

پروفیسر آفتاب اقبال شمیم نے نظم ’یارِبے پروا‘ سبطِ علی صبا کی ناگہانی وفات پر لکھی تھی:

مجھے ملنے نہیں آیا
عظیم الشان سناٹے کی اس اقلیم میں
شاید مجھے تنہا، بہت تنہا حسن ابدال تک جانا پڑے گا
اک خلا کے ساتھ
اک بے انت دُوری کے سفر پر
کیوں نہیں آیا؟
ہمیشہ کا وہ سیلانی
ذرا اُس کو صدا دو
وہ یہیں
اُن خوشبوؤں کی اوٹ میں شاید چُھپا ہو
کیا خبر وہ یارِ بے پرواہ کسی چاہت کے کُنج خواب میں
دبکا ہوا ہو

7 ستمبر 2012: بیادِ ڈاکٹر وزیر آغا نظم مشاعرے کے صدر آفتاب اقبال شمیم اپنا کلام پیش کر رہے ہیں

ہاں صدا دو نا!
مجھے تم اس طرح کیوں تک رہے ہو
میں نہیں روؤں گا
میں بالکل نہیں روؤں گا
کیسے مان لوں وہ میرے آنے پر مجھے ملنے نہ آئے
وہ یہیں ہوگا، یہیں ہوگا
مجھے تم کل اِسی رستے پہ اُس کے ساتھ دیکھو گے

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp