اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ کسی فرد، گروہ یا جتھے کی جانب سے خود ہی عدالت لگا کر کسی کے قتل کا فتویٰ جاری کرنا شرعاً اور قانوناً درست نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف فتوے پر اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ تکفیر کے فتوے، اشتعال انگیزی کسی حکومتی، ریاستی یا عام فرد کے قتل کی دھمکی دینا قرآن و سنت کے خلاف ہے۔
یہ بھی پڑھیں چیف جسٹس کو قتل کی دھمکی دینے پر تحریک لبیک پاکستان کے نائب امیر ظہیرالحسن شاہ گرفتار
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عالم دین اور مفتی کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسائل کا درست شرعی حل بتائے اور صحیح و غلط نظریات کے بارے میں دینی آگہی مہیا کرے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق کفر کے فتوے اور واجب القتل قرار دینے کی روش اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں، یہ سب ریاست، حکومت اور عدالت کا دائرہ اختیار ہے۔
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے کہاکہ لوگوں کو واجب القتل قرار دینے کے جذباتی اقدامات سے عقیدہ ختم نبوت کے کاز کو نقصان پہنچا۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان آئینی و اسلامی ریاست ہے، جس میں جرائم کی سزائیں موجود ہیں، جو عدالت کی جانب سے سنائی جاتی ہیں۔
اعلامیے کے مطابق اگر کسی کو سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے اختلاف ہے تو علمی انداز سے اس کے حوالے سے گفتگو کی جاسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں چیف جسٹس کو دھمکی دینا غداری قرار، حکومت کا ایکشن لینے کا فیصلہ
’اسلامی نظریاتی کونسل 27 نومبر 2018 کو ہونے والے 212 ویں اجلاس میں یہ قرار دے چکی ہے کہ کفر کے فتوے اور واجب القتل قرار دینے کی روش اسلامی اصولوں سے متصادم ہے‘۔