وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ بجلی کے بلوں کی قیمتوں میں کمی جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا ہی نہیں ہماری اتحادی حکومت کا اولین ایجنڈا ہے، ایشو پر حافظ نعیم الرحمان سے اوپن مناظرے کے لیے تیار ہوں لیکن امید ہے اس سے قبل ہی ’حافظ صاحب!‘ واپس چلے جائیں گے۔ دعا ہے کہ جو مسئلہ انہوں نے اٹھایا اللہ ایسے مسائل اٹھانے کی ہر ایک کو توفیق دے۔
اتوار کو ایک ٹی وی انٹرویو میں وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ جماعت اسلامی کے ساتھ مذاکراتی ٹیم میں جب بھی حکومت کہے گی میں اس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہوں، لیاقت بلوچ اور دیگر لوگ میرے بہت اچھے دوست ہیں، مجھے تو ان کے ساتھ مذاکرات کرنے میں کوئی شرم نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:آئی پی پیز سی پیک کی طرح اہم معاہدے، کسی صورت ختم نہیں کر سکتے، اویس لغاری
جماعت اسلامی کے دھرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں اویس لغاری نے کہا کہ وزیر اعظم کا بیان واضح طور پر سامنے آ گیا تھا، ہماری ٹیم جماعت اسلامی کے بھائیوں کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے، جماعت اسلامی کے مطالبات ایسے ہیں جن پر ہم ان کی سوچ سے بھی زیادہ پہلے سے ہی کام کر رہے ہیں۔
بجلی کے بلوں کے ایشو پر سیاسی شہرت اور پبلک اسپورٹ چاہیے
اویس لغاری نے کہا کہ یہ واحد ایشو ہے جس پر اپوزیشن حکومت کو ٹریل کر رہی ہے، گوہر اعجاز ٹریل کر رہا ہے، ہمیں اس ایشو پر سیاسی شہرت اور پبلک اسپورٹ چاہیے تاکہ ہمیں بجلی کے بلوں کی قیمت کو کم کرنے میں مدد ملے اور ہم اس پر زیادہ طاقت کے ساتھ بات کر سکیں، لیکن اس ایشو پر سیاست کرنا درست بات نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ دعوے سے کہتا ہوں کہ بجلی کے ایشو پر جتنی یہ حکومت سنجیدہ ہے اتنا کوئی بھی نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں اویس لغاری نے کہا کہ بجلی کے بلوں کے مسئلے پر حافظ نعیم الرحمان کے ساتھ اوپن مناظرے کے لیے تیار ہوں، وہ اپنے ساتھ 4 انجینیئرز بھی لے آئیں، میں ان کے ساتھ اکیلا مناظرہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔
حافظ صاحب! واپس چلے جائیں گے
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب چاہیں حافظ نعیم الرحمان کے ساتھ مذاکراہ کروا لیں لیکن امید ہے کہ مذاکرے سے پہلے ہی ’حافظ صاحب!‘ چلے جائیں گے، دعا ہے کہ جو مسئلہ انہوں نے اٹھایا اللہ ایسے مسائل اٹھانے کی ہر ایک کو توفیق دے۔ یہ سیاسی ایشو نہیں ہے، یہ ہمارا ایشو ہے، یہ مسلم لیگ ن کا، یہ نواز شریف کا، یہ ہماری کابینہ، یہ ہماری اتحادی جماعتوں کا ایشو ہے۔
وفاقی وزیر توانائی نے کہا ہے کہ بجلی کے بلوں میں کمی ہماری حکومتی اتحاد کے سربراہ اعلیٰ میاں نواز شریف کا ایجنڈا ہے انہوں نے سب سے پہلے یہی کہا تھاکہ عوام کے لیے بجلی کے بلوں میں کمی لانا ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں:اراکین پارلیمنٹ اور بیوروکریٹس کو مفت بجلی فراہم نہیں کی جاتی، پاور ڈویژن کی وضاحت
بجلی پر سود، روپے کی قدر کم ہونے اور ساتھ ہی بجلی کا استعمال کم ہونے بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اس لیے ہمارے پاس بجلی کے بلوں کی قیمتوں میں کمی کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، ان شا اللہ بہت جلد ہماری جماعت بجلی کے بلوں میں عوام کو ریلیف دے گی۔
سیلز ٹیکس سے گھریلو صارفین کو 100 روپے بجلی مہنگی ملتی ہے
اویس لغاری نے کہا کہ الیکٹریسٹی ڈیوٹی ایک ٹیکس ہے، سیلز ٹیکس، ڈومیسٹک صارف پر 18 فیصد ٹیکس ہے، ہر 100 روپے کی بجلی پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگتا ہے، سیلز ٹیکس کے بوجھ کی وجہ سے ہمارے گھریلو صارفین کو 100 روپے مہنگی پڑھتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر توانائی نے کہا کہ ٹی وی فیس پی ٹی وی کو اسپورٹ کرنے کے لیے ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے اس لیے اس کے خاتمے پر مشاورت جاری ہے، یہ فیس 50 روپے سے زیادہ بل میں شامل نہیں ہونی چاہیے ۔
مسجد کے بل میں ٹی وی فیس جارج نہیں آنا چاہیے
مسجد کے بل میں بھی ٹی وی فیس آنے سے متعلق سوال کے جواب میں اویس لغاری نے کہا کہ یہ مسجد کے بل میں نہیں آنی چاہیے اسے ختم کریں گے۔ اگر کسی بل میں غلطی سے آ جائے تو اسے درست کیا جانا چاہیے۔
مزید پڑھیں:آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری میں بھی چین نے مدد کی یقین دہانی کرائی ہے، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
انہوں نے کہا کہ بجلی کے بلوں میں ریلیف دیے بغیر ہماری معیشت پھیل سکتی ہے نہ آگے بڑھ سکتی ہے، کم آمدن والے لوگوں کو حکومت اسپورٹ کرتی ہے، 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو بڑا ریلیف دیا گیا ہے۔
بجلی کے بل میں انکم ٹیکس کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ انڈسٹریل اور کمرشل استعمال پر ہے، گھریلو صارفین میں بہت کم لوگوں کا یہ ٹیکس آتا ہے، اگر کسی گھریلو صارف کو آ جاتا ہے تو وہ فائلر ہے تو سال کے آخر میں جمع کیے جانے والے گوشواروں میں سے اسے منہا بھی کیا جاسکتا ہے۔ فردر ٹیکس ختم کرنے پر بھی مشاورت کی جا رہی ہے۔
عوام پر بجلی کے بلوں کا بوجھ 2018 کے بعد بڑھا
عوام پر بجلی کے بلوں کا بوجھ 2018 کے بعد بڑھا ہے، اس کی وجہ روپے قدر میں کمی اور شرح سود میں اضافہ ہے۔ ہم نے 2013 سے 2018 تک آئی پی پیز کے ذریعے بجلی پلانٹس لگانے کے لیے بہت سارے قرضے لیے اور اس وقت ڈالر کی قیمت 100 روپے تھی جو بعد میں 285 پر پہنچ گئی، ہم پر سود بڑھ گیا، قرضے بھی بڑھ گئے۔
اگر آج ڈالر کی قیمت اور شرح سود 2013 کے نواز شریف والے دور پر چلی جائے تو بجلی کا فی یونٹ 6 سے 7 روپے پر آ جائے گا۔
کسی جج، بیوروکریٹ یا سرکاری ملازم کو مفت بجلی نہیں دی جاتی
ایک سوال کے جواب میں اویس لغاری نے کہا کہ کسی بھی جج، بیوروکریٹ یا سرکاری افسر کو مفت بجلی نہیں دی جا رہی ہے، اس حوالے سے خبر بے بنیاد اور غلط ہے۔
بجلی کی کمپنیوں کے اندر کچھ لوگوں کو مفت بجلی فراہم کی جاتی تھی، اسے بھی حکومت نے ختم کرنے کی کوشش کی، اس وقت کچھ لوگوں کے اس حوالے سے عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں وزیراعظم نے مفت بجلی سے مستفید ہونے والے افسروں اور اداروں کی تفصیلات طلب کر لیں
آئی پی پیز کے سوال کے جواب میں اویس لغاری نے کہا کہ ہم نے آئی پی پیز پر کام 3 مہینے پہلے شروع کیا تھا، آج کل شاہد جو لوگ اس حوالے سے متحرک ہوئے ہیں وہ حکومت کو ہی دیکھ کر متحرک ہوئے ہیں۔
اپوزیشن احتجاج کے ذریعے ہماری مدد کر رہی ہے
انفارمیشن لیک ہو ہی جاتی ہے، شاہد ان لوگوں کے پاس معلومات گئی ہیں تو انہوں نے بھی سوچا کہ حکومت ایک اچھا کام کر رہی ہے تو ہم بھی اس میں حصہ ڈال دیں۔ اچھی بات ہے کہ اس حوالے سے سب کو آواز بلند کرنی چاہیے۔ ایک ایک آئی پی پی کا کیس اسٹڈی کر رہے ہیں۔
عوام کو آئندہ چند ہفتوں میں خوشخبری دیں گے
انہوں نے کہا کہ ہم آئی پی پیز سے متعلق کافی تفصل میں پہنچ چکے ہیں، ہم معلوم کر رہے ہیں کہ کہاں کس کے کتنے اخراجات ہیں اور کہاں ہمیں زیادہ چارج کیا جا رہا ہے، ان کے ساتھ معاہدوں کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے، ان شا اللہ آئندہ چند ہفتوں میں ہم اس پوزیشن میں ہوں گے کہ ہم اپنے ان تمام آئی پی پیز کے ساتھ مل بیٹھ کر کچھ طے کریں گے اور اس کا اثر بجلی کے بلوں پر پڑھے گا۔
یہ بھی پڑھیں: آئی پی پیز کو 10 سال میں کتنے ارب روپے ادا کیے گئے؟
ہم آئی پی پیز کے فرنزک آڈٹ سمیت ہر قسم کی انکوائری کریں گے اور کر بھی رہے ہیں، اس کے لیے ہم کوئی زیادہ بینڈ باجے نہیں بجاتے، ہم آرام سے بیٹھ کر کام کر رہے ہیں کیونکہ یہ ہمارا اپنا ایک مشن ہے۔ وزیر اعظم نے آتے ہی بجلی کے شعبے میں کچھ ریفارمز کی منظوری دی تھی اور آئی پی پیز ان ریفارمز کا ایک کلیدی حصہ تھیں۔
آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے قطعاً ختم نہیں کیے جا سکتے
انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کو قطعاً ختم کیا جا سکتا ہے نہ تبدیل کیا جا سکتا جب تک باہمی مشاورت نہ ہو کیونکہ ریکوڈیک کی طرح 9 سو ملین ڈالر کا جرمانہ بھرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
اویس لغاری نے بتایا کہ سردیوں میں پاکستان میں بجلی کی مانگ 8 سے 9 ہزار میگا واٹ پر چلی جاتی ہے جب کہ گرمی میں بجلی کی مانگ 28 سے 29 ہزار تک پہنچ جاتی ہے اس لیے حکومت کو 28 سے 29 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت والے پاور پلانٹس چاہیے ہوتے ہیں۔
آئی پی پیز سے متعلق ہمارے ہاتھ کوئی نہیں باندھ سکتا
اس سوال پر کہ آئی پی پیز میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے لوگ شامل ہیں اس لیے حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، کے جواب میں اویس لغاری نے کہا کہ اس معاملے ہمارے ہاتھ کوئی نہیں باندھ سکتا، ہم ایک اسٹیٹ ہیں، ہمارے لوگوں کے مفادات ہیں، ہماری جماعت کی پالیسی ہے کہ ہم نے کسی کا مفاد نہیں دیکھنا، آئندہ چند ہفتوں میں جو چیزیں سامنے آئیں گے وہ سب عوام کے مفاد میں ہوں گی اور کسی کے مفاد میں نہیں ہوں گی۔
یہ بھی پڑھیں: بجلی کی قیمت 8 روپے فی یونٹ سے کم کیوں ہونی چاہیے، سابق وفاقی وزیر نے بتادیا؟
انہوں نے کہا کہ ہم چین سے مایوس نہیں لوٹے، چین ہمارے پاور سیکٹر میں ایک بڑا سرمایہ دار ہے، ہم نے بطور پارٹنر چین سے بات کی ہے، چین کی طرف سے انتہائی مثبت جواب ملا ہے، سی پیک کا پہلے کئی زیادہ زور و شور سے آغاز ہو رہا ہے۔
آئندہ نیشنل گرڈ میں آنے والی بجلی پانی سے پیدا کی جائے گی
حکومت کے آئی پی پیز اکثریت میں ہیں، ہم ان میں سود اور قرضہ کم نہیں کر سکتے، ریٹرن آن ایکویٹی یعنی منافع ہم کم کر سکتے ہیں اس پر کام کر رہے ہیں۔ آئندہ 10 ہزار میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں جو لائی جا رہی ہے وہ پانی سے پیدا کی جائے گی۔
آج دُنیا میں سولر اور ونڈ انرجی سستی ہے، لیکن ہمارے پاس پانی کافی ہے اس لیے ہم پانی سے بجلی پیدا کرنے جا رہے ہیں لیکن یہ سولر او وِنڈ انرجی سے مہنگی ہو گی۔
ہمارے کل ڈسکوز 11 ہیں، ان میں سے 6 ڈسکوز پر سٹے ہے، 5 کا پروسیچر تبدیل ہو گیا ہے، اگر عدالت نے ہمارا مؤقف سن لیا تو باقی بھی ہو جائیں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ اب میٹر لگوانے یا تار لگوانے کے لیے لوگ وزرا کے ڈیروں کے چکر نہ لگائیں۔ اگلے سال کچھ ڈسکوز کی نجکاری کا اشتہار آ جائے گا۔ یہ نجکاری گروپس کی صورت میں ہو گی۔