آج سے ٹھیک ایک سال قبل 5 اگست 2023 کو جب سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کو توشہ خانہ کس میں سزا کے بعد گرفتار کیا گیا تو ان کے زیادہ تر مخالفین کا خیال تھا کہ وہ جیل میں زیادہ عرصہ نہیں گزار سکیں گے اور یا تو صلح کرکے مقتدرہ کی نظر میں اچھے بچے بن جائیں گے یا ڈیل کر کے بیرون ملک چلے جائیں گے۔
اس وقت حالات یہ تھے کہ 9 مئی کے واقعات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے سخت کریک ڈاؤن کے بعد ان کی پارٹی تتر بتر تھی۔ ان کے کچھ ساتھی گرفتار تھے، کچھ روپوش اور کچھ تو ساتھ ہی چھوڑ چکے تھے۔ گرفتاری سے پہلے ہی ان کا کارکنوں سے رابطہ منقطع کر دیا گیا تھا اور ان کے یوٹیوب پر خطاب کے ویوز بھی لاکھوں سے کم ہو کر ہزاروں میں جا چکے تھے۔
ان کے ماضی کے ساتھی جہانگیر ترین اور پرویز خٹک ان کی جماعت کو توڑ کر دو نئی جماعتیں بنا چکے تھے۔ برسوں کے ساتھی فواد چوہدری، شیریں مزاری، فیاض الحسن چوہان، علی زیدی، عمران اسماعیل پریس کانفرنس یا اعلانات کرکے الگ ہو چکے تھے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد پارٹی پر اور بھی کڑا وقت آیا۔ سپریم کورٹ میں ان سے ہمدردی رکھنے والے جسٹس عمر عطا بندیال رخصت ہو گئے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جن کے خلاف ان کے دورِحکومت میں ریفرنس دائر کیا گیا، ملک کے چیف جسٹس بن گئے۔
عمران خان کو ایک کے بعد دوسرے کیس میں سزائیں ملنا شروع ہو گئیں، ساتھی وعدہ معاف گواہ بننے لگے اور حالات ایسے ہوئے کہ انہیں اپنی ہی پارٹی کی چئیرمین شپ چھوڑنی پڑی اور اس وقت تک غیر معروف بیرسٹر گوہر خان پارٹی کے سربراہ بن گئے۔
ان کی جماعت سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی رو سے انتخابی نشان سے بھی محروم ہو گئی اور 8 فروری کے الیکشن میں ان کے نو آموز امیدوار میدان میں سینکڑوں الگ الگ انتخابی نشانات لے کر میدان میں اترے۔
عمران خان کے سب سے بڑے سیاسی مخالف نواز شریف پاکستان آگئے اور اپنی جماعت کی انتخابی مہم کی قیادت بھی شروع کر دی جس سے ان کے مخالفوں کے حوصلے آسمان کو چھونے لگے۔
مگر اس سب سے کے باوجود وہ ہوا جو کسی نے سوچا ہی نہ تھا۔ عمران خان کے جیل میں میڈیا کے موثر استعمال، جارحانہ بیانیے اور سوشل میڈیا پر موثر مہم نے انہیں 8 فروری کے الیکشن میں وہ کامیابی عطا کی کہ جس کا شاید انہیں خود بھی اندازہ نہ تھا۔ گو دھاندلی کے الزامات کے ہنگام ان کے حمایت یافتہ ارکان اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکے مگر نہ صرف وہ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت بن گئے بلکہ خیبرپختونخواہ میں ان کے چنے ہوئے روپوش رہنما علی امین گنڈا پور وزیراعلی بھی بن گئے۔
الیکشن کے نتائج نے عدلیہ کے مزاج پر بھی اثر ڈالا اور دیکھتے ہی دیکھتے انہیں ریلیف ملنا شروع ہو گئے اور ان کے خلاف عجلت میں بنائے گئے کئی مقدمات عدلیہ نے فارغ کرنا شروع کردیے اور ججز کھل کر مقتدرہ کے مقابل آگئے۔ نہ صرف 6 ججز نے عدالتی امور میں مداخلت کے خلاف چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ ڈالا بلکہ متعدد پی ٹی آئی حامیوں کو ریلیف دیتے ہوئے فوجی عدالتوں کو بھی غیر موثر کر دیا گیا۔
الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ نے ان کی جماعت کو مخصوص نشستوں سے محروم کیا تو سپریم کورٹ نے ایک بے مثال ریلیف دیتے ہوئے انہیں تمام مخصوص نشستیں لوٹا دیں اور ایسے کرتے ہوئے اکثریتی فیصلہ لکھنے والے ججز اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف کھڑے نظر آئے۔
گو کہ بین الاقوامی سطح پر ان کی رہائی کے لیے کسی حکومت نے آواز نہیں اٹھائی مگر امریکی کانگریس اور برطانوی ایوان نمائندگان ان کی حمایت میں ضرور آئے اور اوورسیز پاکستانیوں اور لابنگ فرمز نے ان کے حق میں بین الاقوامی دباؤ بڑھایا۔
ان تمام عوامل نے ثابت کیا کہ جیل میں قید کے دوران پاکستان کی سیاست میں عمران خان پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں۔ وہ آج گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ عوامی مقبولیت رکھتے ہیں، انہوں نے اپنے بیانیے سے نہ صرف مخالف سیاسی جماعتوں کو غیر مقبول کیا بلکہ مقتدرہ کو بھی خاصا نقصان پہنچا کر انتہائی دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔
کیا کیا کھویا؟
تاہم مندرجہ بالا کامیابیوں کے باجود گزشتہ ایک سال میں عمران خان کے لیے سب کچھ اچھا ہی نہیں ہوا۔ اس ایک سال میں ایک بات واضح ہو گئی کہ عمران خان کی جماعت ان کی قیادت کے بغیر ایک موثر سیاسی قوت نہیں بن سکتی۔ ان کی جماعت اپنے لیڈر کی بھرپور مقبولیت کو کسی بڑے عوامی احتجاج میں نہیں بدل سکی اور حتی کہ وسیع پیمانے پر دھاندلی کے الزامات ، بجٹ میں ہوشربا ٹیکسز اور بڑھتی ہوئی مہنگائی جیسے معاملات پر بھی موثر آواز بلند نہ کر پائی۔
پارٹی میں کئی دھڑے وجود میں آچکے ہیں اور کئی رہنما باہم دست وگریبان نظر آتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں یہ طے نہیں ہو پایا کہ ان کی جماعت میں ان کا جانشین کون ہے؟
جیل کے اندر بھی انہوں نے کم سہولیات اور سزائے موت کے قیدیوں والے سیل میں رکھے جانے کا شکوہ کیا۔ انہوں نے حالیہ دنوں میں صحافیوں سے گفتگو میں یہ شکوہ بھی کیا کہ انہیں فریج تک نہیں ملا جس کی وجہ سے انہیں دو دفعہ فوڈ پوائزننگ ہو چکی ہے۔
بھرپور مقبولیت اور عدلیہ کی جانب سے کمک کے باوجود عمران خان کی رہائی مستقبل قریب میں خاصی مشکل نظر آتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے عمران خان مقتدرہ سے اپنے تعلقات بہتر کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔
انہوں نے اپنی بہن اور پارٹی رہنماوں کے زریعے سپہ سالار سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور جیل سے غیر ملکی نیوز ایجنسی سے تازہ ترین انٹرویو میں بھی کہا ہے کہ فوج کے ساتھ اچھے تعلقات نہ رکھنا بے وقوفی ہوگی، ’فوج کے ساتھ کسی بھی بات چیت کے لیے تیار ہوں ،حکومت کے ساتھ نہیں۔‘
تاہم یہ سوال اپنی جگہ کہ کیا فوج بھی ان سے تعلقات رکھنے پر آمادہ ہو گی یا نہیں؟ فی الحال اس کا امکان مشکل نظر آتا ہے۔