ملک بھر میں بجلی کے زیادہ بلوں اور انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو ماہانہ اربوں روپے کے کپیسٹی چارجز کی ادائیگی پر ملک بھر میں عوام سراپا احتجاج ہیں، جبکہ ایک بڑی سیاسی جماعت، جماعت اسلامی کا راولپنڈی میں 10 روز سے دھرنا جاری ہے۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ آئی پی پیز کو ماہانہ اربوں روپے کی ادائیگی روک دی جائے تاکہ بجلی کے بلوں میں کمی ہوسکے۔
یہ بھی پڑھیں سابق نگراں وزیر محمد علی شہباز شریف کی کابینہ کا حصہ بن گئے
وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کے بلوں میں کمی کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی تھی جس نے آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کا آڈٹ بھی کیا تھا، تاہم کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم اس آڈٹ رپورٹ سے مطمئن نہیں ہیں، اب نگراں دور میں وفاقی وزیر توانائی رہنے والے محمد علی کو وزیراعظم کا مشیر برائے توانائی تعینات کردیا گیا ہے۔
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا وجہ ہے کہ ایک وفاقی وزیر کے ہوتے ہوئے توانائی کے شعبے میں ایک سابق نگراں وزیر کو مشیر برائے توانائی کے عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔
محمد علی کو آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کے لیے تعینات کیا گیا، خالد مصطفیٰ
ماہر توانائی خالد مصطفیٰ نے وی نیوز کو بتایا کہ محمد علی کو انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ ہونے والے معاہدوں پر کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ موجودہ دور میں ہونے والے مذاکرات سابق نگراں وزیر توانائی محمد علی کے دور میں تیار کی گئی رپورٹ کی بنیاد پر ہوئے ہیں، اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کیا جائے اور معلوم کیا جائے کہ فی میگاواٹ بجلی کی قیمت زیادہ تو نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ کتنا تیل استعمال کرکے کتنی بجلی استعمال کی جاتی ہے تاہم اس آڈٹ میں ان دونوں کا تعین نہیں ہوسکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں آئی پی پیز کی آڈٹ رپورٹ جاری، ہوشربا انکشافات سامنے آگئے
خالد مصطفیٰ نے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں 1996 اور 2002 دور میں لگنے والے آئی پی پیز کا آڈٹ کیا گیا تھا اور ڈالر کو 148 روپے پر فکس کردیا گیا تھا، ن لیگ کے دور میں 2015 میں جو کوئلے اور آر ایل این جی سے بجلی بنانے والے آئی پی پیز لگائے گئے ہیں ان کو بہت زیادہ ادائیگیاں کرنا ہوتی ہیں، تو حکومت کی کوشش ہے کہ محمد علی کے ذریعے ان آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور معاہدوں پر مذاکرات کے ذریعے نظر ثانی کی جائے۔ ایسے آئی پی پیز کو کہا جاسکتا ہے کہ وہ بجلی بنانے پر آنے والا خرچ وصول کریں اور کپیسٹی چارجز وصول نہ کریں۔