برطانوی حکام کا نسلی منافرت پر مبنی آن لائن مواد کی شیئرنگ کو جرم قرار دینے کا عندیہ

جمعرات 8 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

انگلینڈ اور ویلز کے پبلک پروسیکیوشن ڈائریکٹر اسٹیفن پارکنسن نے خبردار کیا ہے کہ فسادات سے متعلق نسلی منافرت پر مبنی آن لائن مواد شیئر کرنا جرم ہو سکتا ہے۔ ’ہمارے پاس ایسے سرشار پولیس افسر ہیں جو اس مواد کو تلاش کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو چھان رہے ہیں، اور پھر شناخت گرفتاریوں کے ساتھ فالو اپ کر رہے ہیں۔‘

اسٹیفن پارکنسن کے مطابق نسلی منافرت پر مبنی اس نوعیت کی آن لائن شیئرنگ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے جسے شاید لوگ کوئی اتنا ضرررساں عمل نہ سمجھتے ہوں مگر اس کے نتائج کا انہیں سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں سوشل میڈیا پر نفرت اور تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں 3 افراد گرفتار

واضح رہے کہ کچھ روز قبل برطانیہ کے شہروں لیورپول، برسٹل، مانچسٹر، اسٹول آن ٹرینٹ، بلیک پول اور بلفاسٹ سمیت 2 درجن سے زائد شہروں میں نسل پرستوں کے حملوں میں 150 پولیس اہلکار اور درجنوں شہری زخمی ہوگئے ہیں۔

مقامی میڈيا کے مطابق دائيں بازو کے حامی ساؤتھ پورٹ میں بچوں کے قتل کے بعد سے گزشتہ 5 روز سے جاری واقعات میں مشتعل افراد نے پولیس اسٹیشنز کو آگ لگادی اور متعدد اسٹورز لوٹ لیے تھے۔

برطانیہ میں پولیس نے ملک بھر میں انتہائی دائیں بازو کے تشدد کے تناظر میں پرتشدد اور نفرت انگیز سوشل میڈیا پوسٹ کرنے پر خاتون سمیت 3 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، یہ گرفتاریاں آن لائن پھیلے ہوئے جھوٹے دعوؤں کے باعث فسادات کے بعد ہوئی ہیں کہ ساؤتھ پورٹ میں تین بچوں کو چاقو مارنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا مشتبہ مسلمان سیاسی پناہ کا متلاشی تھا۔

مزید پڑھیں: برطانیہ کے مختلف شہروں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں، متعدد زخمی و گرفتار

برطانوی حکومت نے ہنگامہ آرائی میں ملوث ملزمان کو سزائیں دینےکے لیے عدالتیں 24 گھنٹے کھلی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے واضح کیا ہےکہ غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں، واقعہ دہشت گردی ہے اور نہ ہی ملزم مسلمان ہے۔

برطانوی وزيراعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ کسی بھی قسم کے تشدد کے لیے جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ آزادی اظہار رائے اور تشدد 2 الگ چیزیں ہیں، سڑکیں محفوظ رکھنے کے لیے ہرممکن کارروائی کی جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp