سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو پاک فوج نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں ہاؤسنگ اسکینڈل میں جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف شفاف تحقیقات ہوں گی، وزیر دفاع خواجہ آصف
پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر ) کی طرف سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے پاک فوج کی جانب سے لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں کی گئی شکایات کی درستگی کا پتہ لگانے کے لیے ایک تفصیلی کورٹ آف انکوائری کا آغاز کیا گیا، اور ان پر ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیاں ثابت ہوچکی ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی سفارش کر دی گئی جس کے بعد ان کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے اور انہیں پاک فوج نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت مناسب تادیبی کارروائی شروع کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں جنرل ( ر ) باجوہ اور فیض حمید نے آئین توڑا؟ شاہد خاقان عباسی کا نیا موقف سامنے آگیا
آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ جس کی بنیاد پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں پاک فوج نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف انکوائری کا آغاز کیا تھا۔
افواج پاکستان کی جانب سے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کی درخواست پر انکوائری کمیٹی بنائی گئی تھی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی، جس میں فیض حمید پر چھاپے کے دوران زمین پر قبضے اور قیمتی سامان چوری کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
گزشتہ سال نومبر میں سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل (ایچ آر سی) میں دائر درخواست میں درخواست گزار نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
درخواست گزار معیز احمد خان نے اپنی درخواست میں مطالبہ کیا تھا کہ وفاقی حکومت جنرل (ر) فیض حامد، ان کے بھائی نجف اور دیگر کے خلاف کارروائی کرے انہوں نے یہ بھی کہا کہ چھاپے کے بعد، مجھے اور میرے 5 دیگر ساتھیوں کو قید میں رکھا گیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
بنچ نے 8 نومبر 2023 کو درخواست نمٹا دی اور درخواست گزار کو ریٹائرڈ جنرل کے خلاف متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔
تحریری حکم نامے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بنچ نے کہا کہ درخواست گزار نے الزام لگایا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید، جو اس وقت مسلح افواج میں خدمات انجام دے رہے تھے، نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا اور ان کی ہدایت پر درخواست گزار اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کیا گیا اس لیے انہوں نے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ جنرل (ر) فیض حمید کے کہنے پر درخواست دہندہ کو اس کی کاروباری املاک سے محروم کر دیا گیا۔ درخواست دہندہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے کاروبار ڈائگنسٹ ایسوسی ایٹ، ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم کو ان کے نامزد کردہ ناموں کے نام منتقل کرے۔
تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ فاضل ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) نے کہا کہ درخواست گزار کے پاس اس مقدمے کے لیے دیگر متعدد فورم بھی دستیاب ہیں، جن میں وزارت دفاع سے رابطہ کرنا بھی شامل ہے کیونکہ شکایت اس مدت سے متعلق ہے جب مذکورہ مدعا علیہان مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والے افسران میں شامل تھے۔