ضیاالحق کا لاوارث سیاسی مشن

ہفتہ 17 اگست 2024
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ضیاالحق کی 11 سالہ ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کو آج 36 برس گزر گئے۔ اس عہد میں عوام نے سختیاں اور تلخیاں برداشت کیں لیکن بعد میں بھی اچھے دن نہیں آئے۔

پاکستان میں انتہا پسندی، فرقہ واریت، بد امنی، عدم رواداری اور ثقافتی انحطاط کا دور دورہ رہا۔ معاشرہ افغان جنگ کے مہلک اثرات کی لپیٹ میں تھا۔ اس کا تانا بانا بکھر چکا تھا جس کی یکجائی کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔

ضیا دور کے اثرات کا اندازہ ہم اکثر اپنے کانوں میں پڑنے والے اس جملے سے کر سکتے ہیں:

‘ضیاالحق آج بھی زندہ ہے’

یہ اس وقت دہرایا جاتا ہے جب ملک کسی ایسے سانحے یا بحران سے دو چار ہوتا ہے جس کا تعلق ضیا دور میں شروع ہونے والی پالیسیوں سے ہوتا ہے۔

ضیا باقیات کی ترکیب بھی سیاسی لغت کا حصہ ہے جسے سیاسی مخالفین پر طنز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ضیا ڈکٹیٹر شپ کی ظلمت کے پھیلے سایوں کی بات سے میرا ذہن پولینڈ کے ممتاز صحافی ریشارد کاپوشنسکی کی انقلاب ایران کے بارے میں کتاب Shah of Shahs کی طرف منتقل ہوتا ہے جس کا ‘شہنشاہ’ کے نام سے نامور مترجم اجمل کمال نے ترجمہ کیا ہے۔ اس میں سے یہ اقتباس ملاحظہ کریں:

‘کسی آمریت کے زوال کے بارے میں سوچتے ہوئے کسی شخص کو اس گمان کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ اس زوال کے ساتھ پورا نظام، کسی بھیانک خواب کے ختم ہونے کی طرح، زمین بوس ہو جاتا ہے۔ اس کا جسمانی وجود یقیناً ختم ہو جاتا ہے، لیکن اس کے نفسیاتی اور سماجی شاخسانے برسوں تک برقرار رہتے ہیں، یہاں تک کہ رویوں کے تحت شعوری تسلسل میں باقی رہتے ہیں۔ دانشوری اور کلچر کو برباد کر دینے والی آمریت اپنے پیچھے ایک خالی، بنجر زمین چھوڑ جاتی ہے جس میں فکر کا پودا جلد نہیں اگتا۔ اس زمین کے عقب میں بنی ہوئی باڑھوں، کونوں کھدروں اور کمیں گاہوں میں سے باہر آنے والے لوگ لازمی طور پر اعلیٰ ترین نہیں ہوتے، بلکہ اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے خود کو دوسروں سے زیادہ مضبوط ثابت کیا؛ ان میں سے اکثر وہ لوگ نہیں ہوتے جو نئی اقدار کو جنم دے سکیں بلکہ موٹی کھال والے ہوتے ہیں جو اپنی سخت جانی کی بدولت زندہ بچ گئے۔ ایسے حالات میں تاریخ ایک المناک دائرہ شر میں چکر کاٹنے لگتی ہے اور اس چکر سے آزاد ہونے میں ایک پورا عہد گزر جاتا ہے۔ ‘

ضیاالحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد افغان جنگ میں امریکا کا اتحادی بن کر اقتدار کو محفوظ بنا لیا تھا۔ استبداد کے باوجود لوگ مزاحمت کرتے رہے۔ کوڑے کھائے۔ زندان آباد کیے اور مقتل میں سرخرو ہوئے۔

تحریک بحالی جمہوریت( ایم آر ڈی) نے سیاسی ہلچل پیدا کی لیکن اس سب سے اقتدار پر ضیا کی گرفت ڈھیلی نہیں پڑی جس کی ایک بڑی وجہ غالباً یہ تھی کہ ایسا کوئی معاشی بحران پیدا نہیں ہوا جس کے ساتھ سیاسی جبر کا میلاپ ہونے سے لوگ باہر نکل آتے۔ لیکن پھر سیاسی عمل شروع ہوا جو غیر جماعتی الیکشن اور پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ کی وجہ سے شفاف نہیں تھا لیکن پھر بھی بات آگے بڑھی، جس میں محمد خان جونیجو کا کردار کافی اہم تھا۔

ڈکٹیٹر کی بچھائی گئی سیاسی بساط اس کے انجام سے پہلے سمٹنا شروع ہو جاتی ہے۔ ضیا ڈکٹیٹر شپ کی فولادی دیوار، محمد خان جونیجو کے وزیراعظم بننے سے کمزور ہونا شروع ہوئی۔ جونیجو ضیا کی رضا سے وزیراعظم بنے تھے لیکن انہوں نے پہلی ہی ملاقات میں ضیا کے سامنے یہ سوال کھڑا کر دیا تھا کہ وہ مارشل لا کب اٹھا رہے ہیں؟

اس کے بعد بند کمرے کے بجائے انہوں نے سر عام یہ بات کہی تھی: جمہوریت اور مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

نازک مزاج شاہاں کو چھوٹی گاڑیوں پر بٹھانے کے اعلان نے بھی جونیجو کے لیے مسائل پیدا کیے۔ جونیجو کابینہ میں وزیر یوسف رضا گیلانی کے بقول’ یہ احکامات سول و ملٹری افسر شاہی کو بہت ناگوار گزرے۔ اسی دن سے وزیر اعظم کے خلاف محلاتی سازشیں شروع ہو گئیں۔ ‘

سویلین بالادستی کے لیے جونیجو کی پیش قدمی ضیا کے لیے پریشانی کا سبب بن رہی تھی۔ اوجڑی کیمپ سانحہ کے ذمہ داروں کو سامنے لانے کی سعی جونیجو کے اقتدار سے بے دخلی کا حتمی جواز ثابت ہوئی۔

معروف صحافی اظہر سہیل کی جونیجو عہد کے بارے میں کتاب کا عنوان بڑی معنویت کا حامل ہے:

‘سندھڑی سے اوجڑی کیمپ تک’

سانحہ اوجڑی کیمپ کی تین رپورٹس تیار ہوئیں۔ پہلی دو رپورٹس میں قصور واروں کا تعین کرنے سے گریز کیا گیا تھا۔ وزیر مملکت برائے دفاع رانا نعیم محمود کی تیسری رپورٹ میں ذمہ داروں کا نام تھا اور اسی کے نتائج پر وزیراعظم کو بھروسہ تھا۔

اظہر سہیل کی مذکورہ کتاب کے ایک باب کا عنوان ہے: ‘خطرناک فیصلے ‘۔

اس میں انہوں نے رانا نعیم محمود کی رپورٹ کے بارے میں لکھا ہے:

‘وزیراعظم نے اپنے قریبی رفقا سے مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ وہ نہ صرف یہ رپورٹ حسب وعدہ قوم کے منتخب نمائندوں کے سامنے پیش کریں گے بلکہ اس کی روشنی میں صدر مملکت کو یہ سفارش کی جائے گی کہ جنرل اختر عبد الرحمان کے خلاف کارروائی کریں۔ جہاں تک جنرل حمید گل کا تعلق تھا، ان کے خلاف اقدام بطور وزیراعظم جونیجو صاحب کے اپنے ہاتھ میں تھا اور وہ یہ کام کرنے کے لیے بھی پوری طرح تیار تھے۔ ‘

سابق سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان کی کتاب ‘افغانستان اور پاکستان، تصادم، انتہا پسندی اور عہد جدید سے مزاحمت ‘ سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ضیاالحق نے جونیجو حکومت کو جرنیلوں کے دباؤ کے تحت برطرف کیا تھا۔ یہ جرنیل اوجڑی کیمپ حادثے کی تحقیقات کی وجہ سے جونیجو سے خائف تھے۔

جنرل ضیا نے جونیجو حکومت کو برطرف کردیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد زندگی کے ساتھ ضیا کا اقتدار بھی ختم ہوگیا۔

17 اگست 1988 کو جنرل ضیا کی موت کے بعد جونیجو حکومت بحال ہونے کا امکان پیدا ہوا لیکن آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ نے یہ خبر پاتے ہی سپریم کورٹ کو پیغام بھیجا کہ وہ ایسا کرنے سے باز رہے۔ اسلم بیگ نے راز کی یہ بات 1993 میں لاہور میں صحافیوں کی بھری بزم میں کہی تو اس کا بڑا چرچا ہوا۔ سپریم کورٹ میں اسلم بیگ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی زورو شور سے شروع ہوئی لیکن دباؤ کی وجہ سے اسے بعد ازاں جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔

عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی ضیا دور کی روایت پر بعد میں بھی عمل ہوتا رہا۔ جونیجو حکومت پاکستان میں ہائیبرڈ رجیم کی ابتدائی شکل تھی جس میں وزیراعظم اور عدلیہ پر دباؤ رہتا تھا لیکن 2018 کے بعد ہائیبرڈ رجیم کی انتہائی شکل کے وزرائے اعظم کے مقابلے میں جونیجو نے زیادہ فراست اور جرات سے سویلین بالادستی کا مقدمہ لڑا۔ ضیا کو خاصا ٹف ٹائم دیا۔

اب ہم آجاتے ہیں ضیاالحق کی دشمن اول پیپلز پارٹی کی طرف جسے کرش کرنے کے لیے انہوں نے بھٹو کی پھانسی سمیت جبر کا ہر طریقہ آزمایا۔ یہ ساری کوششیں اس وقت بےسود گئیں جب 1986 میں وطن واپسی پر محترمہ بینظیر بھٹو کا لاہور میں فقید المثال استقبال ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کی یہ پذیرائی ضیاالحق عین حیات میں دیکھ گئے تھے اور ان کی آنکھیں بند ہونے کے چند ماہ بعد بینظیر بھٹو 35 سال کی عمر میں وزیراعظم بن گئی تھیں۔ ضیا کی عسکری اور سیاسی باقیات موسوم بہ آئی جے آئی ان کا رستہ نہیں روک سکی تھیں۔

جنرل حمید گل بڑے فخر سے آئی جے آئی بنانے کا کریڈٹ لیا کرتے تھے۔ جنرل اسد درانی نے اسی سیاسی اتحاد کو نوے کے الیکشن میں پیسے تقسیم کیے تھے۔ جنرل فیض حمید کے کارنامے کل کی بات ہے۔ ان سے فیض یاب سیاسی جماعت اب اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی دعوے دار ہے۔

ضیاالحق کے بعد پیپلز پارٹی کئی دفعہ اقتدار میں آئی۔ دوسری طرف ضیاالحق کے سیاسی سپاہی نواز شریف ایک مدت تک تو ان کا سیاسی مشن پورا کرنے کا اعلان کرتے رہے اور اب وہ بھولے سے بھی ضیا کا نام نہیں لیتے کیونکہ اب اس کا سیاسی فائدہ نہیں رہا جبکہ ان کا میثاقِ جمہوریت کے وقت سے پیپلز پارٹی کے ساتھ استوار سیاسی تعلق کئی منزلیں طے کر چکا ہے۔ ضیا کی مجلس شوریٰ کے چئیرمین خواجہ محمد صفدر کے فرزند ارجمند خواجہ محمد آصف قومی اسمبلی میں بڑوں کے ضیاالحق کا ساتھ دینے پر معافی مانگ چکے ہیں۔ یہ تو سیاسی ورثاء کی بات ہے۔

ضیاالحق کے حقیقی بیٹے اعجاز الحق کی پاکستان مسلم لیگ (ضیا) تانگہ پارٹی ہے۔ وہ قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کے لیے دربدر پھرتے ہیں جس کے لیے انہیں برادری کارڈ بھی کھیلنا پڑتا ہے۔ چند سال پہلے معروف شاعر اور صاحب اسلوب کالم نگار اظہار الحق نے اپنے کالم میں لکھا تھا:

‘قدرت کا انتقام عجیب وغریب ہوتا ہے، جس شخص نے مذہب کے نام پر ملک کو دوزخ بنا دیا، اس کا فرزند مذہب کے نام پر نہیں، ایک دور افتادہ علاقے سے ذات، برادری کے نام پر ووٹ لیتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا اس حقیقت کا کہ مذہب کا استعمال خالص ایک سو فی صد ذاتی مفاد کے لیے تھا۔ ‘

اعجاز الحق 2023 میں عمران خان کے سیاسی اتحادی کے روپ میں سامنے آئے اور یہ اہم بیان جاری کیا:

‘عمران خان امتِ مسلمہ کے قابل اعتماد قائد ہیں’

کڑے وقت میں وہ قائد کو چھوڑ گئے۔ 2024 میں بہاولنگر سے ایم این اے بنائے گئے۔ تحریک انصاف کے شوکت بسرا مسلسل دہائی دیتے رہے ہیں کہ انہیں الیکشن ہروایا گیا اور اعجاز الحق کے ووٹ تو مسلم لیگ ن کے امیدوار سے بھی تھوڑے تھے۔

ان سب حوالوں کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ضیا نے اس ملک میں اپنی ناجائز حکومت بنانے، چلانے اور بچانے کے لیے جس طرزِ سیاست کو فروغ دیا اسے لوگوں نے رد کیا۔ ان کی زندگی میں بھی اور بعد میں بھی۔

ضیاالحق کی زندگی اور اقتدار ایک ساتھ ختم ہوئے اس لیے یہ مضمون اس ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کی یاد میں ہے جس کے بارے میں معروف دانشور اقبال احمد نے کہا تھا کہ ضیاالحق نے پاکستان میں جامد اور موت کی سی خاموشی والی حکومت قائم کر رکھی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp