پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کے بیشمار مسائل میں سے سر اٹھاتا نیا مسئلہ ڈومیسائل کا نہ بننا ہے جس کی وجہ سے 10ویں جماعت کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لیے طلبہ کو مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔
ناظم آباد کے رہائشی افتخار عالم خان کے 4 بچے ہیں جن میں سے ایک بیٹا اور بیٹی میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم کے خواہشمند ہیں لیکن دیگر اسناد کی طرح ڈومیسائل کی شرط نے انہیں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے سے روک دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جعلی ڈومیسائل، پی آر سی پر سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کے خلاف سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کا تحریری حکمنامہ جاری
افتخار عالم خان نے وی نیوز کو بتایا کہ ان کے والد آج سے کم و بیش 40 سال قبل روزگار کی غرض سے خیبرپختونخوا سے کراچی منتقل ہوئے تھے جس کے بعد وہ کراچی کے ہی ہو کر رہ گئے اور ان کا ڈومیسائل بھی یہیں کا بنا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا اور ان کے بھائی بہنوں کا ڈومیسائل کراچی کا ہی بنا لیکن اب ان کے بچے بڑے ہوئے ہیں تو پتا چلا کہ اس کے لیے شناختی کارڈ پر عارضی اور مستقل پتا ایک ہونا ضروری ہے بصورت دیگر ڈومیسائل نہیں بنے گا۔
افتخار عالم خان نے نادرا سے رجوع کیا تاکہ اپنا مستقل و عارضی پتا کراچی کا ہی درج کروا سکیں لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوسکی۔
مزید پڑھیے: کیا خیبرپختونخوا ای ڈومیسائل بنوانا واقعی تکلیف دہ عمل ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ والد کے نام کی پراپرٹی سمیت دیگر اہم دستاویزات کے باوجود نادار ایسے دستاویزات کی ڈیمانڈ کر رہا ہے جو فراہم کرنا نا ممکن ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں ایک کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہوں اور مجھ سے کہا جا رہا ہے کہ میں اپنے نام کا بجلی و گیس کا بل لے کر آؤں۔
یہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے، قادر خان مندوخیل
سابق رکن قومی اسمبلی ایڈووکیٹ قادر خان مندوخیل نے اس حوالے سے وی نیوز کو بتایا کہ یہ صرف کراچی کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے اور میں نے اس مسئلے کو اسمبلی کے فلور پر اٹھایا اور اپنے حلقے کی بات کی۔ ان کا کہنا تھا میرے شناختی کارڈ پر 2 پتے درج ہیں اور میرا کراچی کا ڈومیسائل بنا ہوا ہے جبکہ غریب آدمی جب جاتا ہے تو اس سے ڈومیسائل بنانے کے لیے 50 سے 60 ہزار روپے رشوت لی جاتی ہے۔
غیر ملکی تو رشوت دے سکتا ہے ایک پاکستانی کہاں سے اتنی رقم دے ؟
قادر خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ڈومیسائل کے لیے ایک غیر ملکی تو رشوت دے سکتا ہے لیکن ایک پاکستانی جو غریب ہے وہ 50، 60 ہزار روپے کہاں سے دے گا اور اگر مان لیا کہ اتنی رقم کسی نے بطور رشوت دے بھی تو ضروری نہیں کہ وہ ڈومیسائل اصلی بھی ہو۔
انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں سندھ پولیس میں بھرتی کے لیے نوجوانوں نے حصہ لیا لیکن جب ان کے ڈومیسائل تصدیق کے لیے گئے تو 100 امیدواروں کے ڈومیسائل جعلی نکلے۔
آئین کیا کہتا ہے، ڈومیسائل کے لیے کون اہل ہے؟
قادر خان مندوخیل کہتے ہیں کہ سٹیزن ایکٹ 1969 کا سیکشن 17 یہ کہتا ہے کہ جو شخص ایک سال سے کہیں رہتا ہے تو وہ وہاں کے ڈومیسائل کے لیے اہل ہوجاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسمبلی میں تحریک پیش کی کہ اس دورانیے کو کم کرکے 6 ماہ کردیا جائے جو کہ پاس ہو گئی تھی جس کے بعد معاملہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس چلا گیا، جس نے کہا کہ یہ 6 ماہ بھی مناسب نہیں بلکہ جس کے شناختی کارڈ پر جو پتا موجود ہے وہی اس کا ڈومیسائل ہے لیکن اس معاملے پر قومی اسمبلی میں اعتراض آیا تو یہ معاملہ التوا کا شکار ہوگیا جس کے بعد اسمبلی کی مدت ختم ہوگئی تھی لہٰذا آج بھی یہ تحریک ریکارڈ کا حصہ ہے اور اسے منظور کرنے کی سفارش کمیٹی کرچکی ہے۔
میں پاکستانی ہوں اور جہاں چاہے رہوں
قادر خان مندوخیل کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت بحیثیت پاکستانی میں آزاد ہوں کہ کراچی میں رہوں، لاہور میں رہوں، پشاور میں رہوں یا جہاں چاہے رہوں۔ انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ میں ہوں تو کہیں اور کا لیکن ایک سال یا اس سے زائد ہو چکا کہ میں کراچی میں ہوں تو میرا کراچی کا ڈومیسائل بن جائے گا لیکن یہاں تو 40 سال سے رہنے والوں کے نہیں بن رہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں پیدا ہونے والوں کے نہیں بن رہے بہانہ بنایا جا رہا ہے کہ شناختی کارڈ پر 2 پتے ہیں اور اسی بنیاد پر رشوت لی جا رہی ہے۔
یہ مسئلہ اسلام آباد میں بھی سر اٹھا رہا ہے
قادر خان مندوخیل کہتے ہیں کہ اسلام آباد کی آبادی 20 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اب وہاں بھی یہی مسئلہ بن رہا ہے کہ ڈومیسائل نہیں بن رہے اور جب ڈومیسائل نہیں بنیں گے تو سرکاری نوکری تو دور وہاں بچوں کے داخلے نہیں ہو سکتے جو ایک سنگین مسئلہ ہے اور بدقسمتی سے میرے پاس قومی اسمبلی کی معیاد کم تھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔
سینیئر صحافی عبدالجبار ناصر کا کہنا ہے کہ سنہ 2018 اور سنہ 2020 میں ان کو ایسی صورت حال سے گزرنا پڑا جو انتہائی مشکل تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کے داخلے کے وقت ڈومیسائل کا مسئلہ آڑے آیا تھا لیکن پرائیویٹ کالج قریب ہونے کی وجہ سے ہم نے داخلہ کروالیا جس سے اتنی دشواری نہیں ہوئی لیکن سنہ 2020 میں ان کی بیٹی کو یونیورسٹی میں جانا تھا اور ڈومیسائل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کسی سرکاری یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملنے پر وہ اپنی بیٹی کے لیے سرکاری دفاتر میں ڈومیسائل کے حصول کی جنگ لڑتے رہے جہاں سے مستقل یہ جواب دیا جاتا تھا کہ آپ شناختی کارڈ سے دہرا پتا تبدیل کر کے ایک کرا دیں پھر شاید کچھ ہو جائے۔
مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ:جعلی ڈومیسائل کے اجراء کے خلاف درخواست مسترد
عبدالجبار ناصر کہتے ہیں کہ شناختی کارڈ پر پتا تبدیل کروانا ان کے لیے ممکن نہیں تھا کیوں کہ قانون میں ایسی کوئی بات نہیں ہے چوں کہ معاملہ بیٹی کی پڑھائی کا تھا تو میں پتا تبدیل کرانے نادرا پہنچ گیا جہاں نادرا نے جواب دیا کہ جب تک آپ کی کراچی میں کوئی جائیداد نہیں ہوگی تب تک آپ کا مستقل پتا تبدیل نہیں ہوگا اور اس بات کے لیے دلیل سندھ اسمبلی کی قرارداد اور خواجہ اظہارالحسن کی عدالت میں دائر درخواست بتائی گئی۔
عبدالجبار ناصر کہتے ہیں کہ جب انہوں نے ان دونوں چیزوں کو دیکھا تو ان میں ایسی کوئی پابندی موجود نہیں تھی ان میں غیر قانونی مقیم شہریوں کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔
قانون کیا کہتا ہے؟
عبدالجبار ناصر بتاتے ہیں کہ قانون کے مطابق کوئی اگر 3 برس سے کہیں رہتا ہو وہ ڈومیسائل کے حصول کا اہل ہوجاتا ہے اور اگر کوئی بچہ جس شہر میں پیدا ہوا ہو وہ اس شہر کے ڈومیسائل کے لیے اہل ہو جاتا ہے.
ان کا مزید کہنا تھا کہ میری تصدیق کے لیے میرے آبائی علاقے گلگت سے تصدیق بھی کروائی گئی اور اسپاٹ انکوائری کروائی گئی کہ میں سنہ 1993 سے کراچی میں مقیم ہوں اور یہ تمام دستاویز بھی میں نے جمع کرادیے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر سے ملاقات بھی کی گئی اس تمام مراحل کے بعد بھی نتیجہ یہی نکلا کہ جب تک دہرا پتا تبدیل نہیں ہوگا تب تک ڈومیسائل نہیں بنے گا، جب یہ بات ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ آپ لکھ کر دے دیں کہ ڈومیسائل نہیں بن سکتا جس پر انہوں نے کہا کہ ہم لکھ کر بھی نہیں دے سکتے۔
قانون کو میں نہیں جانتا ہمیں اوپر سے آرڈر ہے
عبدالجبار ناصر کا کہنا ہے کہ میں ڈومیسائل ایکٹ کی کاپی لیکر ڈی سی آفس گیا اور ان سے کہا کہ جو آپ کر رہے ہیں وہ اس میں کہاں ہے تو آگے سے جواب آیا کہ میں قانون کو نہیں جانتا بس آرڈر ملا ہے۔
مجبوراً بیٹی کا داخلہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں کرانا پڑا
عبدالجبار ناصر کا کہنا ہے کہ اس بھاگ دوڑ میں سرکاری تعلیمی اداروں کے داخلے بند ہونے کی وجہ سے انہیں مجبورا پرائیویٹ ادارے میں داخلہ کرانا پڑا اور سیمسٹر کی بنیاد پر لاکھوں روپے جمع کرانے پڑتے رہے باوجود اس کے کہ میری بیٹی میرٹ پر آرہی تھی۔
ڈومیسائل کا مسئلہ وزیراعلیٰ سندھ تک کیسے پہنچا؟
عبدالجبار ناصر کا کہنا تھا کہ ایک دن وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی پریس کانفرنس تھی جس میں کسی نے ڈومیسائل پر سوال کیا تو وہاں میں نے کہا کہ میں یہ صورت حال بھگت چکا ہوں آپ کی حکومت کے اس عمل کی وجہ سے میں مشکلات سے گزر رہا ہوں اور لاکھوں روپے فیسوں کی مد میں جمع کرا رہا ہوں۔
یہ بھی پڑھیے: پنجاب میں ’دستک‘ ایپ کے ذریعے شہریوں کو گھر کی دہلیز پر کون سی سروسز فراہم کی جائیں گی؟
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے مرتضیٰ وہاب کو ہدایت کی کہ آپ ان کے مسئلے کو دیکھ لیں جس کے بعد ڈپٹی کمشنر نے فون کیا کہ آپ اپنا ڈومیسائل بنوالیں اور صبح میں ڈی سی آفس پہنچ گیا اور وہاں سے پھر وہی بات سننے میں آئی کہ آپ کو اپنا پتا تبدیل کرانا ہوگا لیکن بعدازاں میرا اور میری بیٹی کا کراچی کا ڈومیسائل بنا لیکن مختصر یہ کہ قانون میں کوئی پابندی نہیں لیکن غیر اعلانیہ طور پر بتایا گیا ہے کہ دہرے پتے والوں کا ڈومیسائل نہیں بنے گا۔