پیارے بچو! جھوٹ بولو

ہفتہ 17 اگست 2024
author image

اسامہ خواجہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کل ایک کولیگ نے اپنے بچے سے متعلق دلچسپ بات بتائی۔ کہنے لگے گرمیوں کی چھٹیوں میں اسکول والوں نے میرے بیٹے کو آئس کریم اسٹکس کے ساتھ کسی بھی شے کا ماڈل بنانے کا پراجیکٹ دے رکھا تھا۔ بچہ ابھی پلے گروپ میں ہے اس لیے انہوں نے اس سے فوٹو فریم بنوایا، جو اس نے میری مدد سے مکمل کیا۔ 2 دن پہلے چھٹیاں ختم ہوئیں تو میں پرانی روٹین کے مطابق دفتر جانے سے قبل اسے اسکول چھوڑنے گیا۔ کہنے لگے کہ جیسے ہی اسے لے کر اسکول میں داخل ہوا تو مجھے کافی حیرت ہوئی۔ اس کے ہم جماعت اور دوسرے بچوں کے والدین اپنے ساتھ عجیب و غریب چیزیں بنا کر لائے تھے۔ کسی نے ان اسٹکس سے پورا گھر بنایا ہوا تھا تو کوئی پورا ریلوے اسٹیشن بنا کر اٹھا لایا تھا۔ میں دل میں کچھ شرمندہ سا ہو گیا اور میرے بچے نے وہ فوٹو فریم اسکول میں دکھانے سے انکار کر دیا۔ خیر اس دن میں دفتری کام نمٹا کر جلدی، جلدی گھر گیا اور رات گئے تک اس کے لیے نیا پراجیکٹ بنانے میں جتن رہا۔

کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد ایک قابلِ قبول سا پراجیکٹ تیار کیا اور اگلی صبح بچے کو لے کر اسکول روانہ ہو گیا۔ راستے میں اسے سمجھایا کہ ٹیچر نے پوچھا تو کہہ دینا کہ ابا نے بنایا ہے اور اس میں میری مدد بھی شامل ہے۔ جس پر بچے نے کہا، میں تو کہوں گا کہ یہ میں نے ہی بنایا ہے۔ یہ سن کر میں پریشان ہو گیا کہ جس بچے نے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا وہ ابھی اسکول کے 2 مہینوں میں جھوٹ بولنے پر کیسے تیار ہو گیا ہے۔ خیر، میں نے اس سے دوسرے موضوعات پر گپ شپ شروع کر دی اور کچھ دیر بعد باتوں باتوں میں پوچھا کہ وہ ٹیچر کے سامنے جھوٹ کیوں بولے گا۔ جس پر بچے نے کہا کہ اسکول والوں نے کہا تھا ‘پراجیکٹ خود بنا کر لانا ہے’۔ باقی بچے تو اس سے بھی بڑے بڑے پراجیکٹس بنا کر لائے ہیں اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ پراجیکٹ میرے والدین نے بنایا ہے۔ اس لیے اگر میں نے یہ کہا کہ پراجیکٹ میرے بابا نے بنایا ہے تو مجھے شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔ میرے دوست کے بقول تین، ساڑھے تین سال کا بچہ کتنے کوئی بڑے آرٹ پیس بنا سکتا ہے؟ اور جیسے پراجیکٹ باقی بچوں کے والدین لائے تھے وہ تو یہ بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ان کے والدین نے خود ہی بنائے ہیں۔ یہ سب اسٹیشنری کی دکانوں پر یا پھر کسی پروفیشنل کے بنائے ہوئے دِکھ رہے تھے۔

یقیناً گرمیوں کی چھٹیوں کے لیے اسکول انتظامیہ اور اساتذہ کو بچوں کے لیے اسائنمنٹس دینا ہوتی ہیں۔ بچوں کے پاس ان طویل چھٹیوں کو گزارنے کے لیے کوئی نہ کوئی تخلیقی سرگرمی بھی ہونی چاہیے۔ لیکن ایسے کسی پراجیکٹ یا اسائنمنٹ کا کیا مقصد جو بچہ خود نہ بنا سکے۔ اس کی جگہ والدین بنائیں یا کسی پروفیشنل کی خدمات حاصل کی جائیں اور بچہ اسکول میں یہ کہنے پر مجبور ہو کہ یہ میں نے خود بنایا ہے۔ جو پراجیکٹ بچے کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافے کی بجائے اسے جھوٹ بولنے پر مجبور کر رہا ہے، ایسے پراجیکٹ کے کیا کہنے۔ پھر اسکول کا ماحول اگر بچے کو سچ بولنے کی بجائے غلط بیانی سکھا رہا ہے تو سوچیں اس کے اگلے 10 سالوں میں کیا تباہی آئے گی۔

خود مجھے بھی یاد ہے کہ چھوٹے بھائی کو چند سال پہلے اسکول والوں نے ایسے نمونے بنانے کو دیے تھے جو فائن آرٹس کے طلبہ یونیورسٹی کے آخری سمسٹرز میں بناتے ہوں گے۔

کاروباری مقاصد کے لیے قائم کیے گئے تعلیمی اداروں میں جہاں رٹا سسٹم بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں ختم کر دیتا ہے وہیں دکھاوے کے لیے کی گئی ایسی سرگرمیاں ان میں سے بنیادی اخلاقیات بھی مٹا رہی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وی نیوز کے ساتھ بطور ایڈیٹر پلاننگ منسلک ہیں۔ اس سے قبل بھی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا کے اداروں کے لیے کام کر چکے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp