سپمورن سنگھ کالرا سے گلزار تک

اتوار 18 اگست 2024
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اگرایسا ہوسکتا کہ میں اپنے خواب تمہاری نیند میں منتقل کرکے تمہیں وہ سب دکھا سکتا جو میں اکثر خوابوں میں دیکھا کرتا ہوں، اگر یہ ممکن ہو سکتا تو تمہیں معلوم ہو جاتا کہ میں تمہیں سرحد پار دینہ میں لے گیا تھا اور تمہیں وہ گھر دکھایا تھا جہاں میں پیدا ہوا تھا، جہاں چھت پر لگا سریوں کا جنگلا دھوپ سے دن بھر میرے آنگن میں شطرنجیں بچھاتا اورمٹاتا تھا۔

تمہیں دینے میں سرسوں کی وہ کھیتیاں بھی دکھائی تھیں جن کے پیلے پیلے پھول میں نے تم کو خواب میں کچے کھلائے تھے۔ وہیں اک راستہ تھا جس کے کنارے لگی ٹاہلیوں پر ساون میں سکھیاں جھولے ڈالا کرتی تھیں، ٹاہلی کی سوندھی سوندھی خوشبو سے آج بھی میری آنکھیں مہک اٹھتی ہیں کہ جب کبھی وہ خواب میں اس رستے سے گزرتی ہیں۔

خوابوں کی اس مسافت میں تمہیں ’کالا‘ سے ’کالووال‘ تک ہوا میں لے کر اڑا ہوں میں۔ تمہیں دریائے جہلم پر کئی عجب منظر بھی دکھائے تھے کہ جب چند نوجوان لڑکے تربوزوں پر لیٹے پانی میں بہتے جاتے تھے اور جہاں ایک تگڑے سے سردار کی پگڑی پکڑ کر میں نہاتا اور ڈبکیاں لگاتا تھا مگر جب غوطہ آتا تو میری نیند کھل جاتی۔

مگر یہ سب کچھ اب صرف خوابوں تک ہی محدود ہے کیونکہ وہاں جانے میں دشواریاں ہیں کچھ سیاست کی۔ وہ اب بھی میرا وطن ہے، پر اب وہ میرا ملک نہیں۔ وہاں جانے کے لیے دونوں سرکاروں کے دسیوں دفتروں سے شکل پر مہریں لگوا کر خواب ثابت کرنا پڑتے ہیں۔

’ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے‘

متحدہ ہندوستان کی آغوش میں جنم لینے والی یہ کہانی پاکستان کے ضلع جہلم کے قصبے دینہ سے شروع ہوتی ہے۔ جہاں ایک سکھ خاندان گائے بھینسوں کا دودھ بیچ کر اچھی زندگی بسر کر رہا تھا۔ اس خاندان کا ایک نوجوان مکھن سنگھ کالرا جسے پڑھائی کا شوق چرایا اور وہ قریبی قصبے (سیدے) کے مولوی صاحب سے چوری چھپے پڑھنے جانے لگا اور یوں اس نے فارسی کی چار جماعتیں پڑھ لیں۔

پھر کیا تھا کہ خاندانی پیشے سے بغاوت کرکے اور گھر والوں کی عدم رضا مندی کے باعث گھر چھوڑ کر بھاگ نکلا اور ایک بس میں سوار ہوگیا جو ککرالی (ضلع گجرات تحصیل کھاریاں کی ایک یونین کونسل اور ایک معروف قصبہ ہے۔ یہ بھمبر روڈ پر واقع ہے، کھاریاں سے قریباً 25 کلومیٹر اور گجرات سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے) جا رہی تھی، جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ چھت پر سامان میں کوئی لڑکا چھپا بیٹھا ہے تب تک دینہ کافی پیچھے رہ گیا تھا۔

ککرالی میں ہی مکھن سنگھ نے خانساماں کی نوکری کرلی، کچھ پس انداز کی گئی رقم سے کپڑا خریدا اور اسے بیچنا شروع کردیا اور پھر یہیں سے کپڑا خرید کر دینہ لے جانے کا پروگرام بنایا تاکہ گھر والوں سے ملاقات اور انہیں کامیابیوں کی خبر بھی ہوجائے۔ گھر والے خوشی سے ملے اور کپڑا دینہ میں اچھے داموں بک گیا۔

’چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں‘

سر میں سودا جو سمایا تھا لہٰذا دینہ سے ککرالی کئی چکر لگائے اور خوب پیسہ بنایا، اسی دوران مکھن سنگھ کالرا کی شادی قریبی عزیز سجان کور سے کردی گئی۔ مکھن سنگھ نے شادی کے بعد دینہ میں ہی کپڑے کی دکان کھول لی۔ کسی نے مشورہ دیا کہ ککرالی سے کپڑا خرید کر یہاں بیچنا اچھے دام حاصل نہ کرسکنے کی اہم وجہ ہے، اگر براہ راست دلی سے کپڑا لا کر بیچا جائے تو دگنا منافع ہاتھ آئے گا، یوں مکھن سنگھ دلی چلا گیا۔ 18 اگست 1934 کو سجان کور نے مکھن سنگھ کے بچے کو جنم دیا، جس کا نام دادا نہال سنگھ نے سمپورن سنگھ کالرا رکھا۔ اس بچے کو دنیا آج گلزار کے نام سے جانتی ہے۔

گلزار کی عمر ڈیڑھ برس کے لگ بھگ تھی کہ والدہ انتقال کر گئیں۔ والدہ کے انتقال کے بعد والد مکھن سنگھ نے تیسری شادی کرلی اور کاروبار کے سلسلے میں زیادہ وقت دلی میں گزارنے لگے۔ مکھن سنگھ نے دلی میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا کئی بار ارادہ کیا مگر آباؤ اجداد کی مٹی سے بے وفائی ہمیشہ ان کے آڑے آتی رہی۔ کچھ عرصہ پہاڑ گنج میں گزارنے کے بعد دلی میں ہی روشن آرا باغ سے متصل سبزی منڈی میں منتقل ہوگئے۔

’چاند کیوں ابر کی اس میلی سی گٹھری میں چھپا تھا‘

گلزار اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ باوجود کوشش کہ مجھے میری ماں کے نقش یاد نہیں آتے، شاید میں بہت چھوٹا تھا لیکن پھر بھی میں بعض اوقات اپنی ماں کا چہرہ آنکھوں میں لانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن اس سعی رائیگاں کا حاصل صرف چند آنسو ہوتے ہیں جنہیں میں پلکوں سے ٹپکنے نہیں دیتا۔

مکھن سنگھ مہینے میں ایک دو مرتبہ دینہ ضرور آتے تھے چونکہ گلزار ماں کی مامتا سے محروم تھے اور سوتیلی ماں کے رحم و کرم پر تھے، اس لیے بھی مکھن سنگھ ان کا زیادہ خیال رکھتے اور اس کی پرزور تاکید بھی کرتے۔ مکھن سنگھ کے پیار کا نتیجہ تھا کہ جب گلزار کے محسوسات نے آنکھ کھولی تو اس کا باپ ہی اس کی کل کائنات تھا۔

گلزار چھ سات برس کے ہوئے تو مکھن سنگھ کی دلی سے واپسی کا شدت سے انتظار کرتے اور پھر ہر مرتبہ مکھن سنگھ کی دلی روانگی کے موقع پر ان کے ساتھ جانے کی ضد کرتے، دینہ ریلوے اسٹیشن پر وہ رو رو کر براحال کرلیتے مگر ان کی فریاد بے سود رہتی، ماں اور چاچے انہیں تسلیاں دے کر گھر واپس لے آتے کہ ’تمہارا باپ جلد واپس آ جائے گا۔‘

’چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں‘

گلزار نے دوسری اور تیسری جماعت دینہ میں ہی پاس کی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب ہندوستان میں آزادی کی تحریک زوروں پر تھی۔ ہندو اور مسلمان اپنے اپنے تئیں انگریز سے آزادی کی جدوجہد کر رہے تھے۔ 1947 میں جب 3 جون کو آزادی کا اعلان ہندوستان میں پھیلا تو مکھن سنگھ نے حالات بھانپتے ہوئے اہلِخانہ کو دینہ سے دلی بلوا لیا، یوں گلزار 11 برس کی عمر میں دلی پہنچے۔

برصغیر کی تقسیم کے خونی واقعات گلزار نے اپنی آنکھوں سے دیکھے وہ کہتے ہیں کہ ’گلیوں اور بازاروں میں بلوائیوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا، کچھ لوگ ذاتی انتقام بھی لے رہے تھے۔ جو اپنی زندگی بچانے کے لیے چھپ جاتے انہیں زندہ جلا دیا جاتا۔ روشن آرا باغ قتل گاہ بن چکا تھا۔ چند ماہ پیشتر اکٹھے اٹھنے بیٹھنے والے ایک دوسرے کے دشمن بن چکے تھے۔ چونکہ ہمارا علاقہ مسلم اکثریتی تھا اور میرے والد کے بااثر مسلمانوں سے اچھے تعلقات تھے، باہمی مدد اور تعاون کی بدولت فسادات کی نذر ہونے سے بچ گئے۔‘

’روز صبح اخبار مرے گھر خون میں لت پت آتا ہے‘

آج بھی گلزار کی نظمیں اور کہانیاں خونی تقسیم کی کربناکی اور دکھ درد کی عکاسی کرتی ہیں۔ دینہ سے ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی دلی میں ان کے گھر آ گئے اس وقت پورے خاندان کا واحد سہارا مکھن سنگھ تھا۔

مکھن سنگھ ہمیشہ گلزار کو پڑھنے کی تاکید کرتے، وہ گلزار کو بڑا آدمی بنانا چاہتے تھے، گھر کے بزرگ مل کر بیٹھتے تو دینہ میں چھوڑ آئی جائیداد کا افسوس کرتے مگر مکھن سنگھ خفا ہوتے کہ اگر آپ وہاں کچھ چھوڑ آئے ہیں تو یہاں بھی تو جانے والوں کا سب کچھ رہ گیا ہے، تم لوگ ناشکرے کیوں ہوتے ہو، وہ بھی تو ہیں جو اپنی اولاد تک گنوا بیٹھے ہیں۔

’مجھ کو بھی ترکیب سکھا کوئی یار جُلاہے‘

بھارت کے معروف پنجابی شاعر درشن سنگھ آوارہ گلزار کے عزیزوں میں سے ہیں اگرچہ وہ کافی مشہور تھے لیکن ان کا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا، انہیں خاندان کے کسی نہ کسی فرد سے ادھار مانگنے کی مجبوری آڑے آئی رہتی تھی۔ گلزار ان سے کافی متاثر تھے اور اس کا بڑا سبب شاعری تھا۔ گلزار کا شاعری میں رجحان دیکھ کر مکھن سنگھ کافی مضطرب تھے اور بقول گلزار ’والد کہتے تھے ’تم گردواروں کے مشاعروں میں شاعری پڑھا کرو گے اور لنگروں میں روٹی کھاؤ گے اور بھائیوں سے ادھار لیا کرو گے۔‘

’ہم نے اکثر تمہاری راہوں میں ،،، رک کر اپنا ہی انتظار کیا‘

گلزار کے بڑے بھائی جسمیر سنگھ ممبئی میں ملازمت کر رہے تھے جبکہ گلزار دلی میں شاعری کی دنیا میں گم تھے۔ وہ رابندر ناتھ ٹیگور سے خاصے متاثر تھے، جبکہ اردو کے استاد مولوی مجیب الرحمان کو محسن سمجھتے ہیں۔ جب سمپورن سنگھ پر شاعری کے رموز آشکار ہوئے تو وہ مولوی مجیب الرحمان کے مشورے سے سمپورن سنگھ کالرا سے ہمیشہ کے لیے گلزار ہوگئے۔

مکھن سنگھ اور دوسرے گھر والے چاہتے تھے کہ گلزار بڑا افسر بنے، مکھن سنگھ گلزار کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنانا چاہتے تھے مگر گلزار ہندسوں کے بجائے لفظوں کے کھلاڑی بن چکے تھے۔ مکھن سنگھ نے گلزار کو بمبئی میں بڑے بھائی جسمیر سنگھ کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ وہاں جا کر تعلیم مکمل کرسکے۔ یکم اگست 1949 میں گلزار بمبئی آ گئے۔ گلزار کہتے ہیں کہ ’جب والد صاحب مجھے ریل گاڑی میں بٹھانے آئے تو کہنے لگے کہ ٹرین میں لوگوں کو غزلیں نہ سنانے لگ جانا۔‘

’یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا‘

جسمیر سنگھ پیٹرو کیمیکلز کے شعبے سے منسلک تھے، انہوں نے کچھ رقم اکٹھی کرکے پیٹرول پمپ بنالیا تھا، گلزار میٹرک کرنے کے بعد پیٹرول پمپ پر کام کرنے لگ گئے۔ گلزار نے ممبئی کے خالصہ کالج میں داخلہ بھی لے لیا مگر وہاں اردو نہیں پڑھائی جاتی تھی، جس کا گلزار کو قلق تھا، انہیں وہاں مجبوراً ریاضی پڑھنا پڑی۔

اتنے بڑے شہر میں آ کر گلزار تنہائی کے کرب میں مبتلا ہو گئے، بھائی کی مصروفیت اور شہر کی اجنبیت نے انہیں اکلاپے کا شکار بنا دیا تھا۔ انہی تنہائیوں کے زیر اثر اکثر راتوں کو باہر گھومتے رہتے، یا پھر رات گئے کسی پارک کے بینچ پر بیٹھ کر خود کلامی کرتے رہتے، یوں کتھارسس دل و دماغ ہلکا کردیتا۔

’تمہارے خواب سے ہر شب لپٹ کے سوتے ہیں‘

تنہائی کے کرب سے بچنے کے لیے گلزار نے انڈین تھیٹر ایسوسی ایشن اور پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کے حلقہ احباب میں جانا شروع کر دیا۔ ان دونوں ایسوسی ایشنز کی میٹنگز ریڈفلیگ ہال میں ہوا کرتی تھیں، جہاں نامور ادیب اور شعرائے کرام مل بیٹھتے تھے، وہیں گلزار کی ملاقات سردار جعفری، کرشن چندر، کیفی اعظمی اور ساحر لدھیانوی جیسی نابغہ روزگار شخصیات سے ہوئی۔

پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کے ذریعے ان کی ملاقاتیں پنجابی کی نامور شاعرہ اور ادیب امریتا پریتم سے بھی ہوئیں، گلزار انہیں عقیدت و احترام سے امرتاجی کہتے ہیں۔ مشہور مصنف گرویل سنگھ پنوں نے گلزار کو بال کٹوانے پر رضامند کیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر پچیس برس تھی، گلزار کہتے ہیں کہ ’دیگر کئی عوامل کے علاوہ میں ان کی مناسب دیکھ بھال سے عاری تھا اور یہ مجھ سے سنبھلتے بھی نہیں تھے۔‘

’سانس لینا بھی کیسی عادت ہے ،،، جئے جانا بھی کیا روایت ہے‘

خالصہ کالج میں اردو نہ ہونے کے باعث گلزار نے کالج چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا اور نیشنل کالج بمبئی میں داخلہ لے لیا تاکہ وہاں اردو پڑھ سکیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں، نظمیں اور غزلیں کہنے لگے تھے، یہی وہ دور تھا جب گلزار نے ’پنجابی ساہت سبھا‘ کے زیراہتمام ادبی رسالہ ’چیتنا‘ بھی نکالا، گلزار کی تحریریں مختلف ادبی رسالوں اور جرائد کی زینت بننے لگی تھیں۔

گلزار بطور مصنف خود کو منوا چکے تھے، ادبی تنظیموں کے توسط سے ان کی دوستیاں پروان چڑھ رہی تھیں اب وہ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے پوشیدہ نہیں تھے، ادبی حلقوں میں ان کا نام احترام سے لیا جانے لگا تھا۔ ایک مرتبہ وہ ’انڈین نیشنل تھیٹر‘ میں ڈرامہ دیکھنے گئے وہاں وہ معروف بھارتی اداکار سنجیو کمار (اس وقت ان کے کیریئر کے ابتدائی دن تھے) کی اداکاری سے بے حد متاثر ہوئے، سنجیو کی عمر اس وقت قریباً 23 برس تھی۔ انڈین نیشنل تھیٹر میں ہی گلزار کی ملاقات موسیقار سلیل چودھری اور شلیندر (معروف نغمہ نگار) سے ہوئی۔

’کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے‘

ناگزیر وجوہات کی بنا پر گلزار کو بھائی کا گھر چھوڑنا پڑا، شاید یہی وجہ تھی کہ وہ تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور بارہویں جماعت پاس کیے بغیر عملی زندگی میں داخل ہو گئے۔ ترکِ تعلیم کے بعد گلزار نے موٹر کمپنی میں ملازمت کرلی جہاں ایکسیڈنٹ شدہ گاڑیوں کو پینٹ کرکے نئی شکل دی جاتی تھی۔ کام کے ساتھ ساتھ گلزار نے ادبی کتابوں کا مطالعہ جاری رکھا جو زندگی کے اگلے پڑاؤ میں ان کے بہت کام آیا۔ گلزار نے یہاں چھ، سات برس کام کیا۔

شلیندر جو آر ڈی برمن (معروف موسیقار) کے گہرے دوست تھے، گلزار کو فلم انڈسٹری میں لے آئے کیونکہ وہ گلزار کی تحریروں اور شاعری سے کافی متاثر تھے۔ وہاں گلزار کی ملاقات دیبو سین سے ہوئی جس نے گلزار کو مشورہ دیا کہ اگر کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو بمل رائے کے پاس چلے جاؤ (بمل رائے نامور ڈائریکٹر تھے، دلیپ کمار کی مشہور فلم ’دیوداس‘ انہی کی ڈائریکشن میں مکمل ہوئی تھی)۔

 ’مورا گورا انگ لئی لے، موہے شام رنگ دیئی دے‘

دیبوسین گلزار کو بمل رائے کے پاس لے گئے اور ان کا بطور مصنف و نغمہ نگار تعارف کروایا۔ بمل رائے ان دنوں بنگال سے جڑی کہانی پر کام کر رہے تھے، انہیں فلم کے لیے نغمہ نگار کی تلاش تھی۔ دیبوسین نے بمل رائے کو آگاہ کیا کہ گلزار بنگالی پر بھی عبور رکھتے ہیں، یوں بمل رائے نے اپنی فلم’بندنی‘ کے گانے گلزار کو دے دیے اور گلزار نے فلمی کیریئر کا آغاز اس گانے سے کیا جس کے بول تھے: ’مورا گورا انگ لئی لے، موہے شام رنگ دیئی دے‘

بمل رائے نے گلزار میں چھپے ٹیلنٹ کو دیکھ کر انہیں اپنا اسسٹنٹ ڈائریکٹر بنا لیا، بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر گلزار کی پہلی فلم ’کابلی والا‘ تھی۔ اس فلم میں انہوں نے ایک گانا بھی لکھا۔ انہی دنوں گلزار کو اپنے والد مکھن سنگھ کے انتقال کا صدمہ بھی سہنا پڑا اور وہ خود کو مزید تنہا محسوس کرنے لگے۔

دی آرٹ اینڈ اچیومنٹ آف گلزار (2009) ڈاکٹر ظفر حسن کی کتاب میں راقم کے مضمون کا حوالہ

 ’میریاں گتاں وی کر دے سن اوہ‘

گلزار اپنے والد کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’انہیں مجھ میں نام کمانے والی کوئی شے نظر نہ آتی تھی اور وہ میرے بارے میں سخت پریشان رہتے تھے، انہوں نے مجھے بہت پیار دیا اور ماں کی کمی تک محسوس نہ ہونے دی، ان کا ذکر کرتے ہوئے گلزار کی آواز بھر گئی اور وہ پنجابی زبان میں کہنے لگے کہ یہ بات میں کسی اور زبان میں نہیں کہہ سکتا: ’میریاں گتاں وی کر دے سن اوہ۔‘

’بندنی‘ کے بعد گلزار نے خاموشی، آشیرواد، گڈی اور سیما فلم کے ڈائیلاگ اور گانے لکھے اور فلم انڈسٹری میں بھی اپنی پہچان بنالی۔ ’بملدا‘ نے فلم بے نظیر کے لیے گلزار سے نغمے لکھوائے، فلم میں مینا کماری مرکزی کردار ادا کر رہی تھیں اور اتفاق سے وہ بھی شاعری کی شوقین تھیں، یوں مینا کماری اور گلزار گھنٹوں بیٹھے شاعری پر گفتگو کرتے رہتے تھے۔

بمل رائے، گلزار

مینا کماری اور تنہا چاند

مینا کماری اپنے کلام کی ڈائریاں اپنے پاس رکھتی تھیں، وہ گلزار کو اپنا کلام سناتی اور یوں شوٹنگ سے بچ رہنے والا وقت وہ آپس میں محو گفتگو رہتے۔ انتقال سے قبل مینا کماری اپنی ڈائریاں بطور خاص گلزار کے حوالے کرنے آئیں تھیں۔ جنہیں گلزار نے ان کی وفات کے بعد ’تنہا چاند‘ کے نام سے شائع کروایا۔

’بلی ماراں کے محلے کی وہ پیچیدہ دلیلوں کی سی گلیاں‘

1971 سے 1996 تک گلزار نے مرزا غالب (ٹی وی سیریل) کے علاوہ 22 فلمیں ڈائریکٹ کیں، 14 فلموں کے اسکرین پلے اور 22 فلموں کے ڈائیلاگ  لکھے۔ 150 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ تمام فلمیں ریکارڈ ساز کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ ان کی بطور ڈائریکٹر پہلی فلم ’میرے اپنے‘ تھی جو 1971 میں منظر عام پر آئی، اور آخری فلم ’ہو تو تو‘ ہے جو 1996 میں سینما ہالز کی زینت بنی۔ پرڈیوسر کی جانب سے فلم کی من پسند ایڈیٹنگ سے گلزار دلبرداشتہ ہوئے اور یہ کہہ کر ڈائریکشن چھوڑ دی کہ جس کام کی لگام آپ کے ہاتھ نہ ہو، اس کا کیا فائدہ؟

گلزار ایک احساس ہے (2018) شیراز ساگر کی کتاب میں راقم کے مضمون کا حوالہ

’راکھی جو میری زندگی کی طویل ترین مختصر کہانی ہے۔‘

اداکارہ راکھی کو 1969 میں فلم جیون مرتیو میں بطور ہیروئن کاسٹ کیا گیا، اسی برس گلزار کو فلم آشیرواد اور خاموشی کے لیے بطور مصنف سائن کیا گیا۔ چند سالہ رفاقتوں کے بعد 18 اپریل 1973 میں راکھی اور گلزار نے شادی کرلی، یوں راکھی، راکھی گلزار بن گئی۔ ایک بچی کی ولادت کے بعد اچانک یہ شادی اپنے انجام کو پہنچی اور ستمبر 1974 میں راکھی نے گلزار سے علیحدگی اختیار کرلی۔ گلزار کی مختصر کہانیوں کی کتاب ’راوی پار‘ کا انتساب ہے: ’راکھی کے لیے … جو میری زندگی کی طویل ترین مختصر کہانی ہے۔‘

میگھنا گلزار، گلزار کی بوسکی

 میگھنا گلزار (13دسمبر1973) ان کی ہونہار بیٹی ہیں جو والد (میگھنا، گلزار کو پاپی کہتی ہیں اور گلزار انہیں بوسکی) کے نقش قدم پر فلم انڈسٹری میں آئیں۔ گلزار راکھی اور میگھنا کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’دراصل میری سب سے بڑی نقاد یہی دو عورتیں ہیں اور اگر میگھنا میں کوئی تخلیقی جوہر موجود ہے تو بھی اس کا سارا کریڈٹ راکھی کو ہی جاتا ہے۔‘

بابا، منو اور پشمینے کی رات

پاکستان میں گلزار کی دوستی اور محبت احمد ندیم قاسمی اور منصورہ احمد کے ساتھ تھی۔ گلزار، احمد ندیم قاسمی کو مرشد مانتے ہیں اور پیار سے ’بابا‘ کہتے تھے جبکہ منصورہ احمد کو وہ ’منو‘  کہتے تھے۔ گلزار کی کتاب ’رات پشمینے کی‘ کا انتساب احمد ندیم قاسمی کے نام ہے جبکہ اس کتاب کے فلیپ پر منصورہ احمد کی خوبصورت نظم اور کتاب میں احمد ندیم قاسمی کے تاثرات بھی درج ہیں۔

اسلام آباد: 2005 منصورہ احمد مرحومہ سے ہوئی یادگار ملاقات، گلزار بھی گفتگوکا موضوع رہے

’گلزار کی آمد ایک واقعہ ہے‘

گلزار نومبر 2004 میں اچانک لاہور آئے کیونکہ احمد ندیم قاسمی سخت بیمار تھے۔ گلزار ان کی تیمارداری کرکے انہیں اسپتال سے گھر شفٹ کروا کر واپس بمبئی چلے گئے۔ گلزار کی اچانک آمد پر احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا کہ ’گلزار کی آمد ایک واقعہ ہے۔‘

 ’جھلا کی لبدا پھرے؟‘ 

گلزار دوسری بار جنوری 2013 میں پاکستان آئے اور لاہور سے اپنی جنم بھومی دینہ پہنچے تھے۔ بمشکل چند گھنٹے دینہ میں گزارنے کے بعد اپنا سات روزہ دورہ ختم کرکے نمناک آنکھیں لیے اسی روز بذریعہ واہگہ بارڈر بھارت لوٹ گئے۔ ان کی اچانک روانگی پر سینئر کالم نگار وسعت اللہ خان نے انتہائی خوبصورت کالم ’جھلا کی لبدا پھرے؟‘ لکھا تھا۔

گلزار دینہ ریلوے اسٹیشن پر، وشال بھاردواج اور ریکھا بھاردواج کے ہمراہ

روشن سفید مونچھوں والا دوست؟

پاکستان کے سرخیل نظم نگار نصیر احمد ناصرخوش نصیب ہیں کہ جہاں دنیا گلزار کی پرستار ہے۔ گلزار، نصیر احمد ناصر کے مداح ہیں۔ گلزار، نصیر احمد ناصر کے ادبی جریدے ’تسطیر‘ میں شائع ہونا اعزاز سمجھتے ہیں۔ گلزار کی ایک کتاب کا انتساب بھی نصیر احمد ناصر کے نام ہے۔ ’دینہ‘ سے اچانک واپسی کے بعد گلزار نے ایک مضمون لکھا تھا، جس کا عنوان تھا ’وہ نظموں کی نوک سے بادلوں میں چھید کرتا ہے‘۔

جنوری 2013: گلزار، نصیر احمد ناصر کا ہاتھ تھام کر آبائی گھر میں داخل ہوئے تھے۔ سویٹر پہنے موجودہ مالک مکان

گلزار نے لکھا تھا کہ ’میں ہمیشہ سے مداح تھا اس شاعر کا۔ انہیں پڑھتا بھی رہا۔ خط و کتابت بھی رہی۔ کوئی امید نہیں تھی کہ کبھی ملاقات بھی ہوگی۔ ایک بار وقت نے پہلو بدلا۔ میں لاہور گیا۔ اور پانچ گھنٹے کا سفر کرکے ’دینہ‘ پہنچا۔ اپنا پیدائشی گھر دیکھنے۔ اپنے جنم کی مٹی چھونے۔ ستر سال کے بعد لوٹا۔ دینہ اسٹیشن پر گیا۔ کچھ احباب ملے۔ ایک شخص نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑا۔ میں دیکھتا رہ گیا۔ اُس کے چہرے پر روشن سفید مونچھیں تھیں! اس سے زیادہ خوبصورت سرپرائز مجھے زندگی میں کبھی نہیں ملا تھا! زندگی کتنی سخی ہے۔ جو ایسے دوست دیتی ہے اور ایسے شاعر۔‘

امجد خان کی یاد میں ماہ رمضان میں روزے رکھتے ہیں

گلزار کا گھر مسلم، ہندو اور سکھ کلچر کا ملاجلا شاہکار ہے۔ ان کے گھر کی دیوار پر آپ کو چاروں قل بھی آراستہ نظر آئیں گے اور گھر کے کسی نہ کسی کونے میں موجود بھگوان کی مورتی بھی دکھائی دے گی۔ گلزار اپنے دوست امجد خان کی یاد میں رمضان کے پورے روزے بھی رکھتے ہیں اور نصیرالدین شاہ کو دنیا کا بڑا اداکار مانتے ہیں۔

’وارث شاہ کا مقروض ہوں‘

گلزار کا کہنا ہے کہ مجھ پر وارث شاہ کا قرض ہے، وارث شاہ پر ایک سیریل بنانا چاہتا ہوں ایک خاکہ سا کھینچ رکھا ہے، سلیم احمد سے اس موضوع پر کام کرنے کی بات ہوئی تھی، آئندہ پاکستان آیا تو وارث شاہ کے مزار پر حاضری کے ساتھ ساتھ شوٹنگ بھی کروں گا۔

نمایاں تصانیف

چورس رات، جانم، اک بوند چاند، کچھ اور نظمیں، دستخط، پکھراج، دھواں، راوی پار، قاعدہ، تروینی، ایک میں دو، رات پشمینے کی، رات چاند اور میں، چلو لمحے چھِیلیں، ٹیگور کی نظموں کے تراجم پر مبنی مجموعہ ’باغبان اور نندیا چور‘۔ میرا کچھ سامان اور چھیّاں چھیّاں، فلمی گانوں کے مجموعے ہیں۔

جی سی یونیورسٹی لاہور کے لیے سید شبیر حسین کے مقالہ میں راقم کے مضمون کا حوالہ

شاعری میں ایک نئی صنف تروینی کے بانی

 گلزار شاعری میں ایک نئی صنف تروینی کے بانی بھی ہیں۔ تین مصرعوں کو گلزار نے ’تروینی‘ کا نام دیا ہے۔ گلزار کے مطابق ’تروینی نہ تو ثلاثی ہے نہ ہائیکو، نہ تین مصرعوں میں کہی گئی نظم کیونکہ ان تینوں اصناف میں ایک خیال اور ایک امیج کا تسلسل ملتا ہے۔ لیکن ’تروینی‘ میں تیسرا مصرع پہلے دو مصرعوں کے مفہوم کو کبھی نکھار دیتا ہے، کبھی اضافہ کردیتا ہے یا ان پر کمنٹ کرتا ہے۔

اس کا نام تروینی اس لیے رکھا کہ سنگم پر تین ندیاں ملتی ہیں گنگا، جمنا اور سرسوتی۔گنگا اور جمنا کے دھارے سطح پر نظر آتے ہیں لیکن سرسوتی جو ٹیکسلا کے راستے بہہ کر آئی تھی وہ زمین دوز ہو چکی ہے۔’تروینی‘ کے تیسرے مصرعے کا کام سرسوتی دکھانا ہے جو پہلے دو مصرعوں سے چھپی ہوئی ہے:

کچھ اس طرح خیال تیرا جل اٹھا کہ بس

جیسے دیا سلائی جلی ہو اندھیرے میں !

اب پھونک بھی دو، ورنہ یہ انگلی جلائے گا

آسکر اور سب سے زیادہ فلم فیئر ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی شخصیت

گلزار بھارت میں سب سے زیادہ فلم فیئر ایوارڈ حاصل کرنے والی شخصیت ہیں، انہیں 22 فلم فیئر ایوارڈ مل چکے ہیں، اس فہرست میں دوسرا نمبر امیتابھ بچن کا ہے جنہیں 15 فلم فیئر ایوارڈز مل چکے ہیں۔ بھارت کے لیے پہلا آسکر اکیڈمی ایوارڈ فلم ’سلم ڈاگ ملینیئر‘ کے گیت ’جے ہو‘ پر حاصل کیا۔ 7 نیشنل ایوارڈز، ساہیتہ اکیڈمی ایوارڈ، گریمی ایوارڈ، دادا صاحب پھالکے ایوارڈ، پدم بھوشن ایوارڈ، گیان پیٹھ ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔

نظم اسکیچ:

یاد ہے اک دن

میرے میز پہ بیٹھے بیٹھے

سگریٹ کی ڈبیا پر تم نے

چھوٹے سے اک پودے کا

ایک سکیچ بنایا تھا

آ کر دیکھو

اس پودے پر پھول آیا ہے

سمپورن سنگھ کالرا سے گلزار تک (17جولائی2005) روزنامہ جناح میں شائع ہوا راقم کا مضمون

’ابھی تک غالب کا ملازم ہوں‘

گلزار کہتے ہیں کہ ’انہیں غالب کے نام پر پینشن مل رہی ہے جو غالب کو نہیں مل سکی۔ غالب کے ہاں تین ملازم تھے جو ہمیشہ ان کے ساتھ رہے۔ ایک کلو تھے جو آخر دم تک ان کے ساتھ رہے۔ دوسری وفادار تھیں جو تتلاتی تھیں، اور تیسرا میں تھا۔ وہ دونوں تو اپنی عمر کے ساتھ رہائی پا گئے، میں ابھی تک ملازم ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp