پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیئر رہنما اور سابق وزیرِاعظم عمران خان کے معاون خصوصی زلفی بخاری نے کہا ہے کہ ہماری حکومت میں صرف آرمی چیف ہی نہیں بلکہ آرمی چیف کے علاوہ نمبر ٹو بھی اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ آرمی چیف کی سیاست میں مداخلت ہو اور ڈی جی آئی ایس آئی کی نہ ہو، ہمارے نظام میں آرمی چیف سے زیادہ ڈی جی آئی ایس آئی کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔
وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے زلفی بخاری نے کہا کہ ‘چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی کہیں نہ کہیں سے ان (فوج) کی سفارشات آجاتی تھیں، اگر چیف سے نہیں تو ڈی جی آئی ایس آئی یا کہیں اور سے آجاتی تھیں، اور ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کا سارا ملبہ سیاسی جماعت پر ہی آتا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘نہ صرف آرمی چیف بلکہ ٹاپ ٹو کی طرف سے بہت زیادہ اثر و رسوخ تھا۔ اور جب اثر و رسوخ زیادہ ہوجاتا ہے تو کئی لوگ اپنے مفاد کے لیے بھی کام کر رہے ہوتے ہیں’۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ‘کئی مرتبہ سوچتا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی کافی زیادہ مداخلت ہورہی ہے اور میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ اس سب کا ملبہ سیاسی جماعت کے اوپر ہی آتا ہے اور پھر بات وہیں آجاتی ہے جیسے عمران خان صاحب اب کہہ رہے ہیں کہ میرے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے، میرے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ ہمیں بھی اس سے سیکھنا ہے کہ ایک بندے پر اتنا انحصار نہیں کرنا چاہیے’۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان کے قریبی ساتھی زلفی بخاری نے کہا کہ ‘آرمی سے ادارے کے طور پر اثر و رسوخ اور نظریہ لینا اور چیز ہے لیکن انفرادی طور پر ان پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ جب کسی فرد پر آپ حد سے زیادہ انحصار کرلیتے ہیں تو وہاں ذاتی پسند ناپسند آجاتی ہے جس کا نقصان حکومت کو اٹھانا پڑتا ہے’۔
زلفی بخاری نے کہا کہ ‘فوج کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات تھے، اور ہونے بھی چاہیے کہ یہ فوج ہماری ہے انڈیا کی تو ہے نہیں۔ وزیرِاعظم اور آرمی چیف کے مشورے کے ساتھ کئی فیصلے ہوتے ہیں اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن مسئلہ وہاں آجاتا ہے جب آپ حد سے زیادہ فوج پر انحصار کرلیں، اور ہم نے یہ سیکھا ہے کہ ضرورت سے زیادہ کسی ادارے پر انحصار نہیں کرنا چاہیے’۔
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘سیاسی قوت ہم ہیں، سیاسی فیصلے ہم نے کرنے ہیں کسی اور نے نہیں، جب آپ کی جگہ کوئی اور آجاتا ہے تو پھر آپ نقصان اٹھاتے ہیں اور ہمیں اس کا نقصان ہوا ہے’۔
‘احتساب کا وعدہ پورا نہ کرنا ہماری ناکامی ہے’
زلفی بخاری نے کہا کہ ‘بیوروکریسی کا انتخاب اور اس سے متعلق کم علمی ہماری بڑی غلطیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ بیوروکریسی کے معاملے میں ہم ناتجربہ کار تھے اور قابل افسران کو تعینات کرنا ایک بڑا چیلنج تھا جس میں ہم ناکام ہوئے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘پنجاب کو ہم بہتر طریقے سے چلا سکتے تھے، ہمارے ملک کا بڑا حصہ پنجاب ہے اور وہاں بہتر آپشنز استعمال کرنے چاہیے تھے۔ ہمارا جو احتساب کا وعدہ تھا اس پر عمل نہیں ہوسکا جو ہماری ناکامی ہے’۔
زلفی بخاری نے احتساب کے عمل میں ناکامی کی وجہ سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘شہزاد اکبر ایک نااہل آدمی تھے، وہ کسی اور ایجنڈے پر تھے اور جب ہمیں پتہ چلا تو بہت دیر ہوچکی تھی، وہ کسی اور ایجنڈے پر تھے اور اب پورے ملک کو اس کا پتہ چل گیا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہماری پہلی مدت تھی اس لیے ہم سے غلطیاں سرزد ہوئیں لیکن اس کے باوجود ہماری کارکردگی بہت بہتر تھی۔ ہمارا موازنہ کیا جاتا تھا کہ عمران خان کی حکومت مزید بہتر کیسے ہوسکتی ہے، کورونا کا وقت بھی آج کے دور سے بہت بہتر تھا’۔
اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہیں تحریک انصاف کو دیوار سے لگا رہی ہے
اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بات کرتے ہوئے زلفی بخاری نے کہا کہ ‘عوام کی رائے یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا رہی ہے۔ تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اگر ادارے نے اس وقت سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ ملک کی سیاست میں 75 سالوں میں آپ نے کردار ادا کیا ہے اور اب اچانک اس موقع پر آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم نیوٹرل ہیں۔ آپ کو پہلے ری سیٹ کرنا ہوگا، انتخابات کروائیں اور پھر خود کو سیاست سے لاتعلق کریں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ عدم اعتماد کا ووٹ لایا جائے، حکومت گرائی جائے، عمران خان کی گرفتاری کی کوشش کی جارہی ہو، ہمارے کارکنان کو گرفتار کیا جائے اور پھر کہیں کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں’۔
عمران خان اور آرمی چیف بیٹھ کر بات نہیں کریں گے تو ملک نہیں چلے گا
سابق معاون خصوصی زلفی بخاری نے کہا کہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ 2 بڑی حقیقیتیں ہیں اور جب تک یہ دونوں مل کر نہیں بیٹھیں گے اور بات نہیں کریں گے تو ملک کیسے آگے چلے گا؟
انہوں نے کہا کہ ‘ہماری فوج بطور ادارہ اس ملک کی بڑی حقیقت ہے اور اب پچھلے 2 سالوں میں ایک نئی حقیقت سامنے آئی ہے اور وہ ہے عمران خان اور پی ٹی آئی۔ جب تک یہ دو حقیقیتیں مل کر نہیں بیٹھیں گی بات نہیں کریں گی ملک آگے نہیں چلے گا’۔
انہوں نے کہا کہ دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنا ہوگی، چاہے وہ ابھی ہو یا حکومت کے بعد ہو۔ ہم مقبولیت کی وجہ سے حکومت میں آجائیں تو ہم حکومت کیسے چلائیں گے؟ بہت سی چیزیں ادارے کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں۔ جب تک آرمی چیف اور عمران خان ایک میز پر بیٹھ کر بات نہیں کریں گے تو ملک کے لیے مشکلات بڑھتی رہیں گی’۔
اسٹیبلشمنٹ مائنس عمران خان سوچ رہی ہے
زلفی بخاری کے مطابق ‘اسٹیبلشمنٹ اس وقت مائنس عمران خان سوچ رہی ہے اور ان کے لیے عمران خان اس وقت ناقابلِ برداشت ہیں، یعنی دونوں طرف اعتماد کی فضا بنانا ہوگی’۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگلے 3 سال جب تک موجودہ آرمی چیف رہیں گے تو کیا صورتحال اسی طرح کشیدہ رہے گی؟ ہم کس طرف جارہے ہیں؟
رنگ روڈ اسکینڈل پر عمران خان کو گمراہ کیا گیا
رنگ روڈ اسکینڈل سے متعلق بات کرتے ہوئے زلفی بخاری نے کہا کہ ‘شہزاد اکبر اور دیگر نے رنگ روڈ اسکینڈل میں میرا نام جوڑا۔ اس اسکینڈل کے ساتھ میرا کوئی لینا دینا نہیں، اگر میرا اس سے کوئی تعلق ہوتا تو مسلم لیگ (ن) کے لیے سب سے آسان چیز یہ تھی میرے خلاف کارروائی شروع کردیتی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘رنگ روڈ اسکینڈل میں عمران خان کو گمراہ کیا گیا، وہ اسکینڈل میرے خلاف سازش تھی۔ 2، 3 سوسائیٹیز رنگ روڈ نہیں بنانا چاہتی تھیں اور انہوں نے پارٹی کے اندر بااثر لوگوں کے ذریعے حکومت میں لوگوں کو قابو کیا، شہزاد اکبر کئی ہاوسنگ سوسائیٹیز کے ساتھ ملے ہوئے تھے، اور آئی بی چیف اور ان کا ٹرائیکا تھا۔’
‘فرح خان کی کرپشن سے متعلق سنا تھا لیکن کبھی کچھ سامنے نہیں آیا’
فرح خان سے متعلق پوچھے گئے سوال پر زلفی بخاری نے کہا کہ ‘فرح خان کا کوئی اثر و رسوخ اپنی انکھوں سے نہیں دیکھا بس صرف سنا ہے۔ اس وقت تو ہر چیز اور ساری طاقت موجودہ حکومت کے پاس ہے، اگر ادارے اس وقت ان کے خلاف کوئی ایک چیز بھی سامنے نہ لاسکیں تو یا تو ان اداروں کی اہلیت نہیں یا پھر کچھ ایسا ہے ہی نہیں’۔
انہوں نے کہا کہ اس سارے معاملے پر میرا یا پارٹی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، فرح خان اگر کہیں ملوث رہی ہیں تو اس کا پارٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔