احمد فراز: صحرائے محبت کا مسافر

اتوار 25 اگست 2024
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آزادی کا یہی مہینہ تھا جب 17 اگست 1988 کی بھیگتی شام میں احمد فراز خود ساختہ جلا وطنی کے دوران امریکا میں حسبِ معمول دوستوں کے جھُرمٹ میں جلوہ افروز تھے کہ اِک دوست نے آتے ہی نوید سنائی کہ صدرِ پاکستان جنرل ضیا الحق طیارے کے حادثے میں شہید ہو گئے:
احمد فراز نے برجستہ کہا کہ اس مصرعے کا مفہوم آج آشکار ہوا ہے کہ ’شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔‘

’جو شرف ہم کو ملا کوچہ جاناں سے فراز‘

احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاه تھا۔ والد سید محمد شاه برق اردو اور فارسی کے شاعر تھے۔ احمد فراز 12 جنوری 1931 کو نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔ زندگی کے ابتدائی دن پشاور کے کوچہ چڑی ماراں میں گزرے۔ پھر کوہاٹ منتقل ہو گئے اور اسلامیہ ہائی سکول کوہاٹ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ایڈورڈز کالج پشاور میں بھی زیر تعلیم رہے۔ جامعہ پشاور سے اردو اور فارسی میں ماسٹرز کیا۔

ناہید افتخار بہن، امیر جان والدہ، سعدی فراز، محمد شاہ برق والد، محمود شاہ بڑے بھائی، شبلی فراز، یاسمین بھتیجی، بیگم فراز، احمدفراز، مسعود کوثر بھائی

’جس طرح تم گزارتے ہو فراز ۔ ۔ ۔ زندگی اس طرح گزرتی نہیں‘

احمد فراز نے عملی زندگی کا آغاز پاکستان ریڈیو کراچی سے مولانا چراغ حسن حسرت کی سربراہی میں بطور فیچر رائٹر کیا۔ جامعہ پشاور میں لیکچرر کی ذمہ داری بھی نبھائی۔ ڈائریکٹر، پاکستان نیشنل سینٹر رہے۔ چیئرمین و ڈائریکٹر جنرل پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز بھی رہے۔ چیف ایگزیکٹو لوک ورثہ اسلام آباد اور بطور مینیجنگ ڈائریکٹر نیشنل بک فاؤنڈیشن بھی خدمات انجام دیں۔ پھرمرتے دم تک بطوراحمد فراز زندگی گزاری۔

مزید پڑھیں:‘بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی’

’دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں‘

تنہا تنہا (1958)۔ درد آشوب (1966)۔ نایافت (1970)۔ شب خون (1971)۔ میرے خواب ریزہ ریزہ (1972)۔ جاناں جاناں (1976)۔ بے آواز گلی کوچوں میں (1982)۔ نابینا شہر میں آئینہ (1984)۔ سب آوازیں میری ہیں (1985)۔ پس انداز موسم (1989)۔ بودلک (1994) خوابِ گل پریشاں ہے (1994)۔ غزل بہانہ کروں (1999)۔ شہرِ سخن آراستہ ہے، کلیات (2004)۔ اے عشق جنوں پیشہ (2007)۔

’کسی اور دیس کی اَور کو سُنا ہے فراز چلا گیا‘

یہی اگست کا مہینہ تھا کیلنڈر پر 25 تاریخ تھی اور سال تھا 2008 جب صحرائے محبت کا مسافر احمد فراز، خوشبو کے سفر پر نکلا۔ آج فراز کی 16ویں برسی ہے، لیکن محبت اور مزاحمت کا شاعر آج بھی پرستاروں کے دل کی دھڑکن ہے۔ ماضی قریب سے عہد موجود تک جتنی محبتیں اور شہرتیں احمد فراز نے سمیٹیں، دور تک کوئی مقابل دکھائی نہیں دیتا۔ احمد فراز سے اسلام آباد میں انگنت ملاقاتیں رہیں، پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے تناظر میں متعدد بار ان کے انٹرویو بھی کیے۔ چند اقتباسات نذر قارئین ہیں:

مزید پڑھیں:بنام مشتاق احمد یوسفی

ان سے پوچھا کہ سقوط ڈھاکا کے پس منظر میں آپ کی دو نظمیں ’سحر کے سورج‘ اور ’میں ترا قاتل ہوں‘ میں آپ نے خود احتسابی کی روش اپنائی ہے، آپ اس سانحے کا ذمہ دار کِسے سمجھتے ہیں؟‘

احمد فراز: فوج کو سمجھتا ہوں چونکہ وہ میری فوج تھی اس لیے اپنے آپ کو بھی اس میں شامل کیا۔ فوج اور سیاستدانوں کے کردار کی وجہ سے جو ہونا تھا وہ تو ہوا۔ تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے، قومیں فوجوں سے نہیں لوگوں سے بنتی ہیں، اپنے ہی لوگوں کو محکوم رکھا۔ کیا آدھا ملک گنوا کے ہمارے 50 برس ضائع نہیں چلے گئے۔

مشرقی پاکستان غیر متنازع علاقہ تھا، اس پر کسی دوسرے ملک کا دعویٰ نہیں تھا۔ کشمیر متنازع علاقہ تھا اس کا کچھ حصہ بھارت کے جبکہ کچھ حصہ ہمارے پاس ہے، اس پر آپ سمجھوتا کر رہے ہیں تو پھر ہماری قومی غیرت کہاں گئی؟ بعض قومیں تو ایک انچ زمین نہیں چھوڑتیں۔

مزید پڑھیں:شہرِ نظم اُداس ہے

آپ نے ایسٹ پاکستان دے دیا، قیدی ہو گئے پھر اس کے بعد آپ کو چھڑایا گیا، یہ پھر بھی لوگوں کو کہتے ہیں کہ ہم اڑا دیں گے ہم مار دیں گے۔’میں ترا قاتل ہوں‘ نظم میں یہی کچھ ہے کہ میرے ہاتھ میں بندوق تھی اور میں نے ان کو قتل کیا۔

’اب میرا ہنر ہے مرے جمہور کی دولت / اب میرا جنوں خائف تعزیر نہیں ہے / اب دل پہ جوگزرے گی وہ بے ٹوک کہوں گا / اب میرے قلم میں کوئی زنجیر نہیں ہے‘

احمد فراز: یہ نظم ’شاعر‘ میری پہلی کتاب میں ہے، اس کو قریباً نصف صدی ہو چکی ہے اور آج بھی جو میری نظمیں ہیں محاصرہ، اب کس کا جشن مناتے ہو، شہر نامہ، شہر آشوب اس کا مطلب ہے کہ نہ حالات پرانے ہوئے ہیں اور نہ ہی میری نظموں کا موضوع۔

مزید پڑھیں:100 برس کے مشیر کاظمی

77ء کے مارشل لا میں آپ گرفتار ہوئے اور قید میں بھی رکھے گئے کچھ بتائیں؟

احمد فراز: کئی لوگ قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے، ہم بھی گزرے جو پرندہ آزادی کے نغمے گاتا ہے وہ شکاری کی آنکھ میں ہوتا ہے اور پہلا تیر اسی پر چلتا ہے۔ سو ہمیں بھی فوج آ کر لے گئی اور عقوبت خانے میں رکھا اور پھر اس کے بعد قید تنہائی میں رکھا۔ یہ اتنا مسئلہ نہیں تھا البتہ جب ہمیں سندھ بدر کیا گیا تو اس سے تکلیف اس لیے ہوئی کہ میرا اپنا ملک ہے اور ہمیں اس کے ایک حصے میں جانے سے روک دیا گیا۔

پھر میں سوچنے لگا کہ میرا ملک کہاں ہے؟ پھر میں نے جلاوطنی کی زندگی اختیار کی، پانچ برس تک میں اپنی سرزمین اور دوستوں سے دور رہا، تو یہ سب میری شاعری میں بھی آتا ہے۔ میرے پاس کوئی تلوار بندوق تو ہے نہیں کہ میں لیکر نکلوں اور نہ ہی میں اس کا قائل ہوں۔ میں تو حرف کا بندہ ہوں اور حرف ہی میری طاقت ہیں۔ جب تک دم اور میرے قلم میں سیاہی ہے لکھتا رہوں گا اور جب تک زبان میں طاقت ہے بولتا رہوں گا۔

مزید پڑھیں:عینی آپا تھیں تو پاکستانی

’دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جانِ فرازؔ
مل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے ‘

احمد فراز: یہ عشق کی داستان نہیں، اسے ذرا بڑے تناظر میں دیکھیں ابھی میں جو لکھنا چاہتا ہوں شاید نہیں لکھا گیا، اس لیے میں لکھ رہا ہوں، جس دن مجھے یہ تسلی ہوگئی کہ جو میں لکھنا چاہتا تھا وہ میں نے لکھ لیا ہے تو اس کے بعد لکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ہر منزل آخری منزل نہیں ہوتی سو اپنے آپ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں۔

شعر کو نظریے کا پابند ہونا چاہیے؟

احمد فراز: پابندی تو کسی بھی چیز کی ضروری نہیں ہوتی اگر یہ شعر میں آ جاتی ہے اور آپ موضوع کے ساتھ انصاف کرتے ہیں تو وہ خود بخود آپ کو کہنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ کوئی فارمولہ شاعری نہیں ہوتی کہ آج مجھے یہ نظم لکھنی ہے کل اس موضوع پر کہنا ہے۔ دل جس چیز سے انسپائر ہوتا ہے، بے قراری ہوتی ہے، شعر خود اپنے آپ کو کہلواتا ہے۔

اسلام آباد: 12 جنوری 2022 کو سعدی فراز کے ہمراہ احمد فراز کی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے

مزید پڑھیں:سپمورن سنگھ کالرا سے گلزار تک

فیض نے کہا تھا کہ ’ادب کا مقصد پروپیگنڈا ہے‘ آپ کیا کہتے ہیں؟

احمد فراز: ایسا نہیں ہے۔ مجھے علم نہیں کہ فیض نے کس سیاق و سباق میں کہا تھا۔ فیض کی اپنی شاعری پروپیگنڈے کی شاعری نہیں لیکن اس میں نظریہ ضرور ہے پھر بھی اس کی ادبی حیثیت برقرار رہتی ہے۔ مثال کے طور پر پوسٹر اور پینٹنگ میں بہت فرق ہے، پروپیگنڈا پوسٹر ہوتا ہے۔

تخلیقی کیفیت کے بارے میں بتائیں؟

احمد فراز: بالکل نارمل طریقے سے جس طرح میں باتیں کرتا ہوں۔ کھاتا پیتا ہوں۔ گاڑی چلاتا ہوں۔ اس طرح شعر بھی لکھتا ہوں۔ جیسے لوگ باغبانی کرتے ہیں، ٹینس کھیلتے ہیں۔ لکھنے کو جی چاہتا ہے تو لکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ اس کے علاوہ چلتے پھرتے، سفر کے دوران یا بعض اوقات محفل میں بیٹھے ہوئے بھی کوئی آئیڈیا، خیال گرفت میں لے لیتا ہے تو یہ عمل شروع ہو جاتا ہے، میری اکثر چیزیں مارننگ واک پر یا چائے کی پیالی پیتے وقت لکھی گئی ہیں۔

کیبل ٹی وی اور انٹرنیٹ کے بعد کتاب کی طلب میں کمی واقع ہوئی ہے؟

احمد فراز: جن ممالک میں انٹرٹینمنٹ کی یہ سہولیات ہم سے کئی برس پہلے آ گئی تھیں وہاں اب بھی کتابیں ہمارے ملک سے زیادہ چھپتی ہیں۔ وہاں کتابوں کی اشاعت پر کوئی اثر نہیں پڑا، بلکہ وہاں کتابیں زیادہ چھپتی ہیں۔ الیکٹرانکس اشیا سے کتابوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا میں تو دیکھتا ہوں کہ لوگ زیادہ کتابیں خریدتے ہیں، حالانکہ ان کی مالی استطاعت اتنی نہیں ہوتی ٗ اس کا مطلب ہے کہ لوگ کتابیں خریدتے ہیں۔

مزید پڑھیں:جب کہانی ’عبداللہ حسین‘ کے گلے پڑ گئی

کتاب کی قیمت کیوں بڑھتی جا رہی ہے؟

احمد فراز: دیکھیں ہر چیز مہنگی ہو رہی ہے کاغذ، مزدوری، پریس کی ضروریات وغیرہ۔ پیٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ دراصل ہماری عیاشیاں ہیں جو پبلک فنڈز کو ضائع کرتی ہیں، اگر آپ کے 75 منسٹر ہیں تو 75 گاڑیاں، 75 ڈرائیور علیحدہ علیحدہ پیٹرول کا خرچ، پولیس کا پہرہ، یہ سارا خرچ کہاں سے آتا ہے؟ یہ وہی ہے جو چیزوں کی قیمتیں بڑھا کر ہم سے لیتے ہیں۔

احمد فراز اپنے صاحبزادوں شبلی فراز اور سعدی فراز کے ساتھ خوشگوار موڈ میں

جب تک اس طبقے کی عیاشیاں ہیں یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا؟ اگر آپ نے کروڑوں روپیہ غصب کیا ہوا ہے، آپ میرے ساتھ ہو جائیں تاکہ آپ سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہو، اس سسٹم میں آپ کتاب کی بات کر رہے ہیں سبزی کی قیمتیں دیکھ لیں، ہندوستان میں یہاں کی نسبت دوائیاں اور کتابیں سستی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے لیڈر وہ عیاشیاں نہیں کرتے جو ہم کرتے ہیں۔

نیشنل بک فاؤنڈیشن کی زمین پر مسجد نے قبضہ کرلیا تھا وہ کیا معاملہ تھا؟

احمد فراز: اس ملک میں کوئی آئین کی پاسداری نہیں کرتا تو قانون کیا چیز ہے۔ آئین کو پھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے، اگر قانون پر عمل نہیں کرنا یا کروانا تو کوئی ریڈ سنگل پر کیوں رکے؟ مسجد نے ہماری زمین پر قبضہ کرلیا ہم نے بہت کوششیں کیں مگر انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ہم ملاؤں سے نہیں جھگڑ سکتے، حالانکہ مولویوں نے وہاں مسجد بھی نہیں بنائی ان کا ایک کمرشل سکول ہے۔ آبپارہ میں بچوں کی لائبریری سے ملحق، اب وہ ان کی کروڑوں کی جائیداد ہے۔

مزید پڑھیں: راحت اندوری عہدِ جدید کے حبیب جالب

اکادمی ادبیات کے بارے میں کچھ بتائیں؟

احمد فراز: میں نے اکادمی کی بنیاد رکھی اس سلسلے میں بھاگ دوڑ کی، پھر فوج آ گئی اس نے ہمیں ہٹا کر باہر کردیا۔ جلاوطنی کے بعد آیا تو ضیاالحق مرچکا تھا۔ میں پھر بطور چیئرمین اکادمی کام کرنے لگا، اس وقت کے وزیر تعلیم سے میری نہ بن سکی کیونکہ وہ مجھ سے اکادمی کے فنڈز میں سے دو لاکھ روپے مانگ رہا تھا میرے انکار پر مجھے ہٹادیا گیا۔ اس کے بعد لوک ورثہ کا ہیڈ مقرر ہوا، وہاں بھی مجھے انہی مسائل کا سامنا تھا۔ میں نے وہاں سے بھی چھوڑدیا، پھر مجھے نیشنل بک فاؤنڈیشن تعینات کیا گیا تھا۔

اکادمی ادبیات بھی اردو کی ترویج کے لیے کام کر رہی ہے؟

احمد فراز: چیئرمین اکادمی ادبیات کے مقاصد تو یہی ہیں کہ کسی کتاب کی رونمائی کی صدارت کرلی۔ کسی کے ساتھ شام منالی۔ اقبال ڈے پر جلسہ کرلیا یا لوگوں کو وظیفے دے دیے۔ اگر دو آدمیوں کو ایک کمرہ دے دیا جائے تو وہ اکادمی کا سارا کام کرسکتے ہیں۔

حمید شاہد، حلیم قریشی، طارق نعیم، مشکورعلی، شبلی فراز، صغیر انور، محبوب ظفر اور سعدی فراز (25 اگست 2020)

ایوب اور ضیا دور کو کم اور زیادہ جلی روٹی سے تشبیہ دی تھی، موجودہ حکومت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

احمد فراز: دیکھیں فوجی حکومت میں کبھی قوم ترقی نہیں کرتی، ذہنی طور پر عوام پر پابندی ہوتی ہے، اس لیے ان میں پولیٹیکل لیڈر شپ پیدا نہیں ہوسکتی۔

مزید پڑھیں:کراہتے ہوئے انسانوں کی صدا ’جالب‘

’اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں‘ سے لیکر ’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں‘ تک ہر دور میں کوئی نہ کوئی غزل زبان زدعام ہوتی رہی ہے۔ کافی عرصے سے کوئی ہٹ غزل نہیں ہوئی؟

احمد فراز: دیکھیں مجھے تو پتا ہی نہیں چلتا کہ کون سی ہٹ غزل ہے اور کونسی نہیں؟ ہر عہد میں میری کوئی نہ کوئی غزل اوپر چلی جاتی ہے، وقفہ نہیں ہے بس لکھ رہا ہوں، دیکھیں کوئی اور سامنے آ جائے گی، ان کے بعد میری دو تین غزلیں اور مقبول ہو رہی ہیں۔

فیض احمد فیض اور امرتا پریتم کے ساتھ یادگار تصاویر

کوئی گلوکار انہیں گائے گا تو ہٹ ہوں گی؟

احمد فراز: ایسا نہیں ہے، اچھی غزل ہوتی ہے تو گلوکار اسے گاتا ہے، رنجش ہی سہی گانے سے ہٹ نہیں ہوئی تھی۔ اس کی مشاعروں میں پاپولیٹری بڑھی تو فلم والوں نے اٹھالی اور مہدی حسن اور دوسرے لوگوں نے گائی۔ میری غزلیں لتا سے لے کر نورجہاں، جگجیت سنگھ اور پنکج ادھاس تک گا چکے ہیں۔ میں آج تک لتا، آشا بھوسلے اور پنکج ادھاس سے نہیں ملا لیکن انہوں نے میرا کلام گایا ہے۔

مزید پڑھیں:بنام مشتاق احمد یوسفی

ادب میں نقاد اور تنقید کی ضرورت باقی ہے؟

احمد فراز: ادب میں ہر چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ تنقید سے مراد یہ نہیں کہ اپنی دکان چمکائی جائے بلکہ کسی ادب پارے کے بارے میں اپنا اظہار خیال ہے۔ میرا ایک دوست ہے میری اور اس کی فریکوئنسی ملتی ہے، میں جب بھی کچھ لکھتا ہوں تو اسے چیک کرواتا ہوں۔ اگر اسے کچھ پسند نہ آئے تو میں کاٹ دیتا ہوں یا پھر اس سے بحث کرلیتا ہوں، تنقید تو ہوتی ہے۔

نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد: مشکورعلی، احمد فراز، بابرہ رضوی

ڈاکٹر وزیر آغا نے آپ کو Teen Agers کا شاعر کہا تھا وہ بھی تو تنقید تھی؟

احمد فراز: نہیں وہ ذاتی پرخاش تھی، دراصل میں نے ایک جملہ کہا تھا جس پر آغا صاحب ناراض ہوئے اور انہوں نے یہ بات کر دی۔ اصل میں قاسمی اور آغاصاحب کی آپس میں نہیں بنتی۔ پشاور میں وہ دونوں اکٹھے ہوئے تو ایئر مارشل چودھری ہوا کرتے تھے انہوں نے کہا کہ دونوں کی صلح کروا دینی چاہیے۔

انہوں نے دونوں کو بٹھایا اور کہا کہ قاسمی صاحب آپ اپنی نظم اور تصویر آغاصاحب کو اور آغا صاحب اپنی نظم اور تصویر قاسمی صاحب کو بھجوائیں۔ میں نے ازراہ مذاق کہہ دیا کہ صلح تو اچھی چیز ہے مگر فنون کا معیار کیوں کم کرتے ہیں آپ۔ یہ بات آغا صاحب کو بری لگی تھی۔

اسلام آباد: ایچ ایٹ قبرستان میں لوحِ مزار

آپ کے بعد شاعری میں بڑا نام؟

احمد فراز: اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرتے ہیں ہم نے نہ کسی سے تعریف کروائی نہ تقریب رونمائی کروائی۔ کتاب چھپ جاتی ہے تو خود بخود لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ ہر شخص اپنے طور پر اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن بعض لوگوں میں اچھا لکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اچھا لکھ رہے ہیں، یہی ان کی غلط فہمی ہوتی ہے۔

مزیدپڑھیں:8 نومبر: یوم انور مسعود

خدانخواستہ میں نے کوئی مقام حاصل نہیں کیا۔ مجھے جتنے بھی ایوارڈ ملے ہیں ان میں سے سب سے بڑا ایوارڈ لوگوں کی محبت ہے۔ آپ دیکھ لیں نہ میرے لیٹر پیڈ پر ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز یا کمالِ فن لکھا ہے، نہ میرے آفس بورڈ پر کوئی عہدہ لکھا ہوتا ہے کہ چیئرمین، ڈائریکٹر جنرل یا منیجنگ ڈائریکٹر بس میرا نام ہے احمد فراز، اُٹھوں گا تو یہی تختی ساتھ لے جاؤں گا۔

میرے لیے عہدوں میں کوئی کشش نہیں، میں تو پبلشر کو کتاب دے کر بھول جاتا ہوں بلکہ لکھتا ہوں تو دوبارہ نہیں پڑھتا، اس میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں مگر دوبارہ پڑھنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔

اس سے بڑھ کر کوئی انعام ہنر کیا ہے فرازؔ
اپنے ہی عہد میں اک شخص فسانہ بن جائے

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp