بنگلہ دیش کیخلاف شکست، ڈوبنے کے لیے چلّو بھر پانی بھی زیادہ ہے!

اتوار 25 اگست 2024
author image

فہیم پٹیل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تو بات یہ ہے کہ ہم نے ڈیڑھ ہوشیاری میں یہ سوچ کر 448 رنز بناکر پہلی اننگ ڈیکلیئر کردی تھی کہ مہمان بنگلہ دیش کے لیے یہ اسکور بہت ہے اور ہم تو باآسانی یہ میچ جیت جائیں گے، مگر پاکستانی بولرز نہ صرف بے بسی کی تصویر بنے رہے بلکہ انہوں نے اپنے عمل سے بتادیا کہ ’جاگتے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا‘۔

ماضی میں ہمارے فاسٹ بولرز کے پاس ایک ہتھیار تھا جسے aggression کہا جاتا ہے، مگر اب تو اس کی جھلک بھی دکھائی نہیں دیتی۔

یہ فاسٹ بولرز کو سپورٹ کرتی کیسی وکٹ تھی جس میں نہ سوئنگ تھی اور نہ باؤنس۔ اور یہ کیسے فاسٹ بولرز ہیں جو بمشکل ہی 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کے قریب پہنچ رہے ہیں۔

اگر آپ نے میچ نہیں دیکھا تو گزارش ہے کہ ایک بار جھلکیاں ضرور دیکھیں، مجھے معلوم ہے مشکل کام کہہ رہا ہوں لیکن دیکھیں کہ ہمارے فاسٹ بولرز کی کوالٹی کس قدر خراب ہوچکی ہے۔ اپنے اوور پورے کرنے کے سوا ان فاسٹ بولرز نے کچھ نہیں کیا۔

ہمارا پرائم بولر شاہین شاہ آفریدی، جس کا اب صرف نام رہ گیا ہے، پرفارمنس کچھ نہیں۔ آخری 9 ٹیسٹ میچوں میں ہمارے ٹاپ بولر نے 37 کی اوسط اور 66 کے اسٹرائیک ریٹ سے محض 27 وکٹیں لی ہیں۔

ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وکٹ بنانا تو ہمیں پہلے بھی نہیں آتا تھا، مگر اب تو وکٹ کو سمجھنا اور ریڈ کرنا بھی ہمارے لیے مشکل ہوچکا ہے۔ پاکستان کے بولنگ کوچ اظہر محمود نے انتہائی خوبصورت بات کہی۔ کہتے ہیں کہ وکٹ پر موجود گھاس دیکھ کر ایسا لگا کہ وہ فاسٹ بولرز کو سپورٹ کرے گی، اس لیے 4 فاسٹ بولرز کھلائے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیا بات ہے، اس پر شاباش دینے کے سوا ہمارے پاس اور آپشن بھی کیا ہے؟

دوسری بات یہ کہ اس خراب ترین وکٹ پر بھی مہمان ٹیم کے بولرز ہمارے مقابلے میں بہت بہتر ثابت ہوئے۔ آخری دن انہوں نے جس شاندار انداز میں وکٹ کو پڑھا اور اس کے مطابق بولنگ کی، اس کے بعد کامیابی انہی کو جچتی تھی۔

دونوں ٹیموں کے درمیان اس سے قبل 13 ٹیسٹ میچ کھیلے گئے تھے جن میں سے 12 میں پاکستان کو کامیابی نصیب ہوئی تھی اور ایک میچ ڈرا ہوگیا تھا، اس لیے یہ تاریخی کامیابی بنگلہ دیش کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوئی کیونکہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے خلاف اسے پہلی کامیابی ملی ہے۔

ویسے اگر فاسٹ بولرز کی یہی لاٹ باقی رہ گئی ہے تو بہتر ہے کہ اسپن وکٹیں بنالیں۔ ہمارا حال تو دیکھیے کہ میچ کی جیت کے لیے 20 وکٹیں لینی تھیں مگر ہمارے لیے تو بنگلہ دیش کے خلاف بھی 10 وکٹیں لینا مشکل ترین کام بن گیا اور ہماری انتہائی ناقص بولنگ کی وجہ سے اس نے پہلی اننگ میں 117 رنز کی برتری لے لی جو کامیابی کی اصل وجہ بنی۔

مزے کی بات یہ کہ جس وکٹ کو فاسٹ بولرز کے لیے سازگار بتایا جارہا تھا وہاں آخری دن وکٹ پر اسپنرز کا راج رہا اور 9 میں سے 7 وکٹیں انہوں نے ہی لیں، یہ ہے ہمارے راج دلارے ماہریں اور کوچنگ اسٹاف کی سمجھداری اور نظریں۔

شکست کی اذیت اپنی جگہ مگر تکلیف تو یہ بھی ہے کہ ہم گھر میں کھیلنے کا فائدہ بھی حاصل نہیں کر پارہے۔ گزشتہ 3 سالوں میں پاکستان نے گھر میں 9 ٹیسٹ کھیلے اور ایک میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ 5 میں شکست سے دوچار ہوئے جبکہ 4 میچ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے۔

2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں بنگلہ دیش 0-1 سے آگے ہے، یعنی ہم سیریز تو اب نہیں جیت سکتے، لیکن اس سے بڑھ کر پریشانی یہ ہے کہ کیا ہم سیریز برابر بھی کرسکتے ہیں؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ 15 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس وقت وی نیوز میں بطور نیوز ایڈیٹر منسلک ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp