وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سیٹلائٹ براڈ بینڈ سروس فراہم کرنے والے ادارے اسٹارلنک نے ابھی تک پاکستان میں آپریٹ کرنے کے لیے مطلوبہ لائسنس حاصل نہیں کیاہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے ایک حالیہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ اسٹارلنک کی جانب سے حکومت کے مقرر کردہ تکنیکی اور ریگولیٹری فریم ورک کی عدم تعمیل کی وجہ سے لائسنس کی منظوری میں تاخیر ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایلون مسک کے اسٹار لنک سے پاکستانیوں کو کیا فائدہ ہوگا؟
وزارت نے تاخیر کے ایک اہم عنصر کے طور پر جیو اسٹیشنری سیٹلائٹ آربٹ اور نان جیو اسٹیشنری سیٹلائٹ آربٹ سسٹم کے درمیان ممکنہ مداخلت پر تشویش کا حوالہ بھی دیا ہے۔
سرکاری دستاویزات سے چلتا ہے کہ اسٹارلنک سمیت دیگر سیٹلائٹ براڈ بینڈ کمپنیاں اور آپریٹرز پاکستان میں اپنے کاروبار کے آغاز کے لیے کوشاں ہیں، تاہم ابھی تک کسی نے بھی اپنی خدمات کے تجارتی آغاز کے لیے لائسنس کے تقاضوں کی تعمیل نہیں کی ہے۔
مزید پڑھیں:ایلون مسک اب نیا کیا کرنے جا رہے ہیں؟
ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس کا ذیلی ادارہ اسٹار لنک پاکستان میں اپنی سروسز کے آغاز کے لیے سرگرم عمل ہے، جس نے دسمبر 2021 میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ساتھ اسٹار لنک انٹرنیٹ سروسز پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے رجسٹریشن کرائی تھی۔
کمپنی نے فروری 2022 میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو طویل فاصلے اور بین الاقوامی لائسنس کے لیے درخواست دی تھی، پاکستانی مارکیٹ میں اسٹار لنک کے ممکنہ آغازکے حوالے سے جوش و خروش کے برعکس وزارت نے واضح کیا کہ اسٹارلنک سمیت کسی بھی سیٹلائٹ براڈ بینڈ کمپنی نے تجارتی اجرا کے لیے لائسنسنگ کی ضروریات کو مکمل طور پر پورا نہیں کیا ہے۔
مزید پڑھیں:ایلون مسک نے ایکس صارفین کو پیسے کمانے کا کونسا نیا طریقہ بتایا؟
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے مطابق اسٹار لنک سیٹلائٹ براڈ بینڈ فراہم کرنے والی واحد کمپنی نہیں ہے جو پاکستان میں دلچسپی ظاہر کر رہی ہے، دیگر بین الاقوامی لو ارتھ آربٹ اور میڈیم ارتھ آربٹ سیٹلائٹ آپریٹرز نے بھی ملک میں کام کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
تاہم، ایسی تمام کمپنیوں کو پہلے تکنیکی، ریگولیٹری اور حفاظتی تقاضوں کی تعمیل کرنی چاہیے جو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور فریکوئنسی ایلوکیشن بورڈ سمیت مختلف قومی ایجنسیوں کی طرف سے مقرر کی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں:کیا ایلون مسک کی اسٹار لنک پاکستان کو سیٹلائٹ سروس فراہم کرنے جا رہی ہے؟
بشمول اسٹریٹیجک پلانز ڈویژن اور اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن یعنی سپارکو سمیت متعدد اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے کئے گئے تفصیلی جائزے اسٹار لنک کے لائسنس کی منظوری میں تاخیر کا باعث بنے ہیں، ان اداروں نے اسٹار لنک کے مجوزہ آپریشنز کے تکنیکی، ریگولیٹری، مالیاتی اور تجارتی پہلوؤں سے متعلق متعدد خدشات کا اظہار کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسٹارلنک کے ساتھ بات چیت کے باوجود، کمپنی نے ابھی تک اسٹیک ہولڈرز کے اطمینان کے لیے ان خدشات کو دور نہیں کیا ہے، جس کے نتیجے میں لائسنسنگ کا عمل طویل ہو گیا ہے۔